جے آئی رپورٹ پر سپریم کورٹ اپنا فیصلہ محفوظ کرچکی ہے۔ اب کون محفوظ ہے اور کون نہیں یہ سب فیصلہ سنائے جانے کے ساتھ ہی طشت ازبام ہو گا۔ کہتے ہیں عقلمند کے لئےاشارہ کافی ہوتا ہے تو میاں محمد نواز شریف جو تیسری مرتبہ وزارت عظمی کے عہدے پر فائز ہیں، قبل ازیں دو بار اسی قسم کے حالات سے دو چار ہو کر اس منصب سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔اس محفوظ فیصلے سے وزیراعظم نے اپنے لئے کیا اچھے اور کیا برے نتائج اخذ کیے ہیں اس بارے میں وہ یقینا خود بہتر جانتے ہیں لیکن سیاست کی بہتی کشتی کے ملاح بھنور میں پھنسی ناو اور سیاست کے سمندر میں آئی طغیانی کو بخوبی دیکھ رہے ہیں ۔میری ذاتی رائے تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے محفوظ فیصلے کے جتنے بھی مضمرات ہیں ان سے بچنے کا اب ایک ہی راستہ بچا ہے۔ محفوظ فیصلے کے سنائے جانےمیں جتنا بھی وقت باقی ہے وزیراعظم اسے غنمیت جانیں اور وزرات عظمی کے عہدے سے استعفی دے دیں ۔
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد میاں نواز شریف کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے کہ وہ وزرات عظمی سے مستعفی ہوجائیں ۔ میری اس رائے کے پیچھے توجیہ یہ تھی کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اگر نواز شریف کو نااہل قراردے دیا تو وہ وزرات عظمی سے تو ہاتھ دھوئیں گے ہی لیکن اس کے ساتھ پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اپنی پارٹی مسلم لیگ نون کی صدرات کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ میں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ نواز شریف چودھری نثار کو نیا وزیراعظم نامزد کردیں جو اپنے اہم ترین کنکشن کی وجہ سے کچھ نہ کچھ راستہ ان کے لئے نکال لیں گے اور مسلم لیگ نون بھِی بچ جائے گی۔ ایسی صورت میں وہ آئندہ الیکشن کے موقع پر ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اپنا کردار ادا کر سکے گی۔ یقینا میری طرح نواز شریف کی ٹیم کے کچھ دیگر احباب بھی انہیں ایسی تجاویز دے رہے ہوں گے۔ بظاہر فیصلہ محفوظ ہونے تک ایسی تجاویز کو اہمیت نہیں دی گئی۔
تازہ ترین حالات میں صورتحال یہ رخ اختیار کر چکی ہے کہ اگر اب بھی میاں نواز شریف نے وزرات عظمی سے استعفی نہ دیا تو عدالتی فیصلے میں انتخابی نااہلی کی صورت اپنی پارٹی کی قیادت کے اہل بھی نہیں رہیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر معاملہ یہاں تک نہیں رکے گا بلکہ مسلم لیگ نون میں ٹھوٹ پھوٹ کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائےگا۔ نون لیگ جو اس وقت قومی اسمبلی میں 188 ارکان کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے وہ سکڑ کر سو ارکان سے بھی کم ارکان کی جماعت بن کر رہ جائے گی۔سب کو معلوم ہے کہ نون لیگ میں کم از کم 40 ارکان قومی اسمبلی ایسے ہیں جو جنرل پرویز مشرف کی حامی ق لیگ کا حصہ رہے ہیں جبکہ 30 سے 35 ارکان اسمبلی نے اپنی شخصی اہمیت اور حلقے میں اپنے اثر رسوخ کی وجہ سےآزاد حیثیت میں کامیابی حاصل کی تھی اور وہ اپنے حلقوں میں مسلم لیگ نون کو ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچے تھے۔اگرچہ یہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان قومی اسمبلی مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں لیکن تازہ ترین صورتحال میں فیصلہ نااہلی کی سزا کا ہوا تو آئین کے تحت نون لیگ کو نیا پارٹی سربراہ بھی منتخب کرنا ہوگا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں ناراض چودھری نثار علی خان اپنے ساتھ ایک بڑا گروپ رکھنے کا دعوی کر رہے ہیں اور دوسری طرف ق لیگ سے نون لیگ میں آنے والے ارکان کی بڑی کھیپ اور آزاد ارکان اسمبلی بھی موجود ہیں، تو یہ سب اراکین اسمبلی نواز شریف کے اشاروں پر چلیں گے یا وقت و حالات کی ہوا دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ 12 اکتوبر 1999ء کو جب ایسے حالات پیدا ہوئے تھے تو نواز شریف کی زیر قیادت جماعت میں سے اکثریت ارکان اسمبلی چودھری شجاعت کی قیادت میں متحد ہو گئی تھی اور انہوں نے نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ میرے خیال میں ایک بار بھرایسی ہی شکل نکل سکتی ہے۔ اب نااہلی کا فیصلہ آنے پر نون لیگ سے منسلک ارکان اسمبلی کی اکثریت چودھری نثار علی خان کے ساتھ کھڑی ہوگی یوں ایک نیا مسلم لیگ نون )چودھری نثار گروپ( وجود میں آ چکا ہو گا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ مسلم لیگ چودھری نثار گروپ اور تحریک انصاف مل کر ایوان میں اپنی اکثریت کا دعوی کرتے ہوئے صدر مملکت سے مطالبہ کر دیں کہ ان کے نامزد کردہ رکن اسمبلی کو حکومت بنانے کی آئینی دعوت دی جائے۔فی الحال یہ خیال قبل از وقت ہے اور ان حالات میں زیادہ قیاس یہی ہے کہ نون لیگ کا کوئی ہھی گروپ ایوان میں سادہ اکثریت ظاہر کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا جس کے بعد نئے الیکشن کے انعقاد کی آئینی راہیں تلاش کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
ان حالات میں ایک اور آئینی راستہ بھی ہے کہ نواز شریف عدالتی فیصلے سے قبل از خود صدر مملکت کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ دے دیں مگر اس کے لئے بھی ان کے پاس عدالت لگنے سے پہلے پیر تک کا وقت ہے۔ ایک اور قیاس جس پر بعض احباب کی رائے ہے کہ یہ بھی ممکنات میں ہے کہ سپریم کورٹ یہ کیس احتساب عدالت کو بجھوا دے۔میرا خیال ہے کہ ایسے ممکنہ فیصلے کی صورت میں بھی نواز شریف کا استفقی ہی بنتا ہے، کہ اس طرح وہ اپنی پارٹی کے سربراہ کی حیثیت میں نیا وزیراعظم نامزد کر کے بہت کچھ بچا سکتے ہیں ۔
قمرالزمان بھٹی ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور صحافتی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے ساتھ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے مسلسل تین سال رکن اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے، طبقاتی نظام اور ان کے نمائندوں ک خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn