Qalamkar Website Header Image

آخری موقع، استعفی نواز شریف کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے | قمرالزمان بھٹی

قارئین اس وقت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے حامی اور مخالف حلقہ احباب میں یہ بحث پوری شدت کے ساتھ جاری ہے کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو استعفی دینا چاہیے یا نہیں۔ کچن کابینہ کے چاروں ارکان، جنہیں عمران خان موٹو گینگ کہتے نہیں تھکتا، ان سب کی یہ متفقہ رائے سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم مرتے مرتے راہی کوئے عدم ہو جائیں مگر استعفی نہ دیں۔ جس چیز کو یہ سب وزیراعظم اور ان کی فیملی کے لئے خطرناک قرار دیے رہے ہیں درحقیت اس استعفی میں انہیں اپنی سیاسی موت نظر آتی ہے اسی لئے چاروں روزانہ بڑے اہتمام سے سپریم کورٹ کے باہر اپنی منڈلی سجاتے ہیں۔ یہ چار کا ٹولہ تو وزیراعظم کو اپنے طویل ترین 35 سالہ سیاسی دور کی آخری چالیں بھی اپنے ہاتھ سے کھیلنے کا موقع دینے کو تیار نہیں ہے۔ یہ سب وزیراعظم نواز شریف کو یہ باور کرانے میں کافی حد تک کامیاب نظر آتے ہیں کہ سپریم کورٹ سے سنائی گئی سزا نواز شریف کی سیاسی شہادت کا باعث بنے گی جس کی بنا پر بعد میں نواز شریف عوام کی عدالت میں جا کر نون لیگ کی عوامی مقبولیت کو چار چاند لگا سکیں گے۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی شہادت کا فارمولا اگر اتنا سادہ ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد رخصت ہونے والا ہر حکمران ایسے ہی شہادت کےمقام پر فائز ہوتا اور دوبارہ اقتدار کی مالا ان سب کے گلے میں ہوتی۔ کسے نہیں یاد کہ محترمہ بے نظر بھٹو کی حکومت دوبار آئین کی شق 58 ٹو بی کا شکار ہوئی مگر کرپشن کے لگنے والے الزامات سے وہ عوامی سطح پر بری ہوسکیں اور نہ ہی سیاسی شہادت کا مقام انہیں اس وقت میسر آ سکا۔ دلچسپ بات یہ کہ اس سلسلے کی عوامی مہم میں معروف شاعر محسن نقوی کی مشہور نظم "یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور” بھی ان کے کام نہ آئی۔ البتہ بعد میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ملک دشمن عناصر کو للکارتے ہوئے جان کی بازی ہارنے پر ہی وہ شہیدِ جمہوریت کہلائیں۔ یہی صورتحال میاں نواز شریف کے ساتھ بھی رہی اور وہ بھی ایسے ہی کرپشن کے الزامات کے تحت اپنی دونوں حکومتوں کو کھونے کے موقع پر سیاسی شہادت کا مقام نہیں پا سکے۔

یہ بھی پڑھئے:  پانامہ لیکس کے حمام میں

آنے والے دنوں میں متوقع عدالتی فیصلے کے مضمرات کا اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لیا جائے تو میرے خیال میں جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے پر اگر میاں نواز شریف استعفی دے دیتے تو انہیں زیادہ سیاسی فائدہ حاصل ہونا تھا۔ وہ یہ موقف اختیار کر سکتے تھے کہ اپنے وعدے اور اعلان کے مطابق وزارت عظمی سے استعفی دیا ہے۔ پھر نیا وزیراعظم نامزد کرتے اور اپنا مقدمہ عدالت میں لڑتے جس کے بعد ایسی صورت نکل سکتی تھی کہ وہ قانونی اور عوامی دونوں عدالتوں میں سرخرو ہو سکتے مگر وزیر اعظم نے یہ موقع کھو دیا۔ اگرچہ اس حوالے سے کافی حد تک تاخیر ہو چکی ہے تاہم اب بھی کچھ نہیں بگڑا، صورتحال کو کنڑول کیا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو آئینی ماہرین بخوبی جانتے ہیں کہ اگر وزیر اعظم کو اعلی عدلیہ نے نااہل قراردے دیا تو پولٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت وزیراعظم اپنی پارٹی مسلم لیگ نون کے سربراہ بھی نہیں رہیں گے کیونکہ ایک سزا یافتہ شخص کسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ جس کسی کو یہ یاد نہ ہو انہیں جنرل پروزی مشرف کا وہ زمانہ ضرو یاد کر لینا چاہیے جب ایسی ہی سیاسی مجبوری کے تحت میاں نواز شریف کو مسلم لیگ کا قائد بنایا گیا تھا جبکہ مخدوم جاوید ہاشمی صدر اور راجہ ظفر الحق چیئرمین چنے گئے تھے۔ دوسری طرف اس وقت پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی اسی مجبوری کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی بنیاد رکھنا پڑی تھی جس کے سربراہ مخدوم امین فہیم بنائے گئے تھے۔ وہ تو خیر اپوزیشن کا زمانہ تھا اس لئے دونوں جماعتیں اپنی اپنی قیادتوں میں متحد بھی رہیں اور الیکشن بھی جیت گئیں مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے۔ اگر نواز شریف عدالتی فیصلے سے نااہل ہوگئے تو پھر وہ ایک بار پھر پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت وہ نون لیگ کے سربراہ نہیں رہ سکیں گے اور ایسے میں وہ اپنے دستخط سے اپنی جماعت کا نیا وزیراعظم بھی نامزد کرنے کا اختیار کھو دیں گے۔ اس قسم کی صورتحال میں مسلم لیگ نون کو پہلے اپنی پارٹی کا نیا سربراہ چننا ہو گا اور پھر وہ سربراہ نیا وزیراعظم نامزد کرنے کا مجاز ہو گا۔ اب خود ہی سوچیئے کہ جو پارٹی پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو ،جس میں چودھری نثار جیسا لیڈر تحفظات سے بھرا ہوا ہو وہ کسی عدالتی فیصلے میں وزیراعظم اور اپنے پارٹی لیڈر کی نااہلی کی صورت میں متحد رہ سکتی ہے ؟؟ ان سوالوں کا جواب صرف یہ ہے کہ اس سے مسلم لیگ کے اتحاد کو نقصان پہچنے گا اور نون لیگ ٹوٹ پھوٹ جائے گی۔ بہتر یہی ہے کہ میاں نواز شریف عدالتی نااہلی سے پہلے ہی استعفی دے دیں اور پارٹی قیادت اپنے ہاتھ میں رکھ کر نیا وزیراعظم نامزد کردیں۔ اس کے ساتھ اگر ہو سکے تو وہ نئے وزیراعظم کا قرعہ چودھری نثار کے نام کردیں گے۔ یقین جانئے چودھری نثار کے جتنے بڑے "کنکشن” ہیں بہت ممکن ہے کہ وہ اس بحران میں میاں نواز شریف کے لئے بچ نکلنے کی کوئی راہ نکال دیں اور آئندہ الیکشن میں نون لیگ کی قیادت واقعی سیاسی شہادت کے رتبے پر فائز ہو کر ایک بار پھر ملک کی اکثریتی جماعت بن کر ابھرے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس