Qalamkar Website Header Image

عشق مقدس

shad mardanviعشق مقدس کس آزار کا نام ہے. شاید مشکل ترین سوالوں میں سے ہے. یا پھر شاید آسان ترین سوالوں میں سے ہے. چلئے عشق کی تفہیم ہم ایک دو مثالوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں.
خطیب صاحب خطبہ جمعہ دے رہے ہیں. کہ دفعتََا ان کے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے بنا کوئی چوٹ کھائے خون بہنے لگتا ہے. خطیب صاحب بات ٹال رہے ہیں. کھود کرید پر عقدہ کھلتا ہے کہ چند محلے چھوڑ ایک پاکدامن دوشیزہ ہانڈی کیلئے سبزی کاٹتے ہوئے اپنی انگلیاں زخمی کربیٹھی. یہاں خطیب صاحب کے خون کے ایک ایک سیل میں ان دوشیزہ کا عشق سرایت کئے ہوئے ہے. اسی تعلق کی شدت میں عشق نے محبوب کے زخم کا خون بہا ادا کیا.
دوسری مثال
ایک سترہ سالہ مدرسے کا طالب علم تھا. جس کو گھر سے روز دس روپے ملا کرتے تھے. جس میں وہ آنے جانے کا کرایہ اور ہر دوسرے دن چائے کی عیاشی کرلیتا تھا. ماہوار وظیفے کی مد میں مدرسہ اس کو ہر ماہ ایک سو پانچ روپیہ دیتا تھا. ششماہی امتحان کی سہ روزہ چھٹیاں تھیں. جب اس نے گھر میں تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزہ پر جانے کا بہانہ ظاہر کیا. گھر سے ایک سو روپے مزید ملے. چھ ماہ کا "تعلیمی وظیفہ” اور ایک سو روپے جوڑکر وہ ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہے اور خوشحال خان ایکسپریس سے پشاور جاپہنچتا ہے. وہاں سے آگے اپنے گاؤں.. تب صبح ساڑھے سات بج رہے تھے. وہ اس رستے میں کھڑا ہوجاتا ہے. جہاں سے امید تھی کہ ابھی محبوبہ کا کالج کیلئے گزر ہوگا. وہ سرتاپا آنکھ بنا ہوا تھا. اور شہ آنکھ اس کا دل تھا. ایسے میں محبوبہ آتی ہے. وہ سرتاپا سنگ بنی ہوئی تھی اور ہیرے سی سختی اس کے دل میں تھی. محبوبہ اس سترہ سالہ سوختہ وجود کو دیکھتی ہے. ٹھٹھکتی ہے. ہمجولیوں کے بیچ سے نکل کر اس راکھ کے ڈھیر کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے. راکھ کے ڈھیر کا زرہ زرہ فضا میں تحلیل ہورہا تھا. محبوبہ کےہونٹوں کا ارتعاش دیکھ ہر زرہ کان میں تبدیل ہونا شروع ہوا.
"کراچی سے کب آئے ہو. یہاں کیا کررہے ہو.؟”
راکھ کے ڈھیر سے آواز آئی.
"ابھی پہنچا ہوں. تمہیں ایک نظر دیکھنا مقصد تھا. دیکھ لینے دو. ابھی چلاجاونگا”
محبوبہ کو سکتہ آگیا. ہسٹریائی انداز میں چلائی.
"تم پاگل ہوگئے ہو کیا. ”
راکھ اقراری انداز میں محبوبہ کے پیروں میں بچھتی چلی گئی. تب محبوبہ کو رحم آیا تھا. اس کا دل پسیجا تھا. محبوبہ نے نقاب اٹھایا تھا.طور خاکستر کیوں ہوا تھا. راکھ کا ڈھیر یہ تجربہ خود پر نہ کرسکا. وہ پہلے سے جل کر راکھ جو ہوچکا تھا. اور محبوبہ چلی گئی تھی.
اس لڑکے نے اپنی راکھ سمیٹی اور کراچی پہنچ گیا.
کیا بدنی وصال ضروری ہے.؟
کیا عشق وصال سے تام ہوتا ہے.؟
یقینا نہیں…!
چلئے ہر مسئلے میں ہم ائمہ فن کی اقتدا کرتے ہیں. عشق کے باب میں ائمہ عشق کی کیا روش رہی. یہ دیکھتے ہیں.
کیا معیار رکھا جائے. عشق کی کامیابی کا.؟
اس نے عشق کیا. وہ خجل ہوا. اس نے رسوائی کو لباس سا لازم رکھا. وہ مرگیا. پارو کو لیکن موت کی بھی خبر نہ ملی. کیا وہ ناکام عاشق تھا؟
اس نے عشق کیا. محبوب سے وصال ہوا. خالق سے وصال ہوا. کیا اس کا عشق شاد کام ہو گیا؟
یہ جن کا ذکر ہوتاہے قیس و فرہاد ومنصور یہ سب ایک سوچ کے مطابق آئمہ عشق ہوا کرتے تھے اس امت کیلئے.
ہم سب جانتے ہیں کہ اس امت کو رب کریم نے کسی میدان میں بے آسرا نہ رکھا فقہ میں نعمان ابن ثابت، محمد ابن ادریس الشافعی، مالک ابن انس اور احمد ابن حنبل…..
فن قراءت میں عبداللہ ابن عامر یحصبی، ہشام ابن عمار سلمی، ابن ذکوان، عبداللہ ابن کثیر الداری، البزی، قنبل، عاصم، ابوبکر، اور حفص جیسے ائمہ
اور عقائد میں اشاعرہ ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری جبکہ ماتریدیہ ابومنصور محمدبن محمدبن محمود ماتريدى کیطرف منسوب ہیں .
فلسفہ وسائنس میں ابن رشد، فارابی، غزالی اور بیرونی
اس طرح ہر شعبے میں رب کریم نے مختلف افراد (جو اپنی ذات میں کل ادارے تھے) کو امامت کا منصب عطا فرمایا.
بعینہ اسی طرح انسان کی بنیادی ضروریات میں سے عشق بھی ہے
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
اس میں بھی رب کریم نے اُمتِ محمدیہ کو آئمہ نصیب فرمائے.ان آئمہ کی زندگی کیا رہی.؟
تنہا رہی……
سو کہیں ایسا تو نہیں جنہوں نے یہ چاہا کہ ان کا جذبہ ہوس سے، حرص سے، غرض سے گدلا نہ ہو. خواہش سے کثیف نہ ہو.
ان کو آئمہ عشق جیسا انجام "عطا” ہوا.

حالیہ بلاگ پوسٹس