بچپن کا واقعہ ہے کہ سکول امتحان کے نتائج کا اعلان ہوا۔ حسب معمول مختلف رشتہ داروں نے تحائف دیئے۔ ایسے میں بڑی ممانی بھی ہم بہن بھائیوں کے لئے کچھ تحفے لے کر آئیں۔ ممانی سے بے تکلفی زیادہ تھی اس لئے اپنا انعام دیکھتے ہی کھٹ سے اعتراض اور ناپسندیدگی کا اظہار کر ڈالا۔ یہ لٹھ مار جواب سن کر والدہ کے چہرے پر شدید ناگواری ابھری۔ ممانی کا چہرہ بھی اتر گیا لیکن پھر سنبھلتے ہوئے کہنے لگیں کہ نہیں پسند آیا تو کوئی بات نہیں، میں اسے تمہاری فرمائشی تحفے سے تبدیل کروا دوں گی۔ والدہ نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ کچھ دیر بعد ممانی گئیں تو میں والدہ کی ڈانٹ ڈپٹ کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا لیکن انہوں نے انتہائی نرمی سے زندگی کا ایک اہم سبق تعلیم کیا۔ انہوں نے سمجھایا کہ کسی بھی اپنے یا پرائے شخص کی پسند کوجذباتی انداز میں مکمل طور پر رد کر دینا ایک انتہائی غیر اخلاقی عمل ہے۔ کسی کے انتخاب پرایسا شدید منفی ردعمل اس شخص کے جذباتی و نفسیاتی استحصال کے مترادف ہے اور بعض اوقات ناپسندیدگی کی بے قابو ضرب سے تعلق میں ناقابل مرمت دراڑ آ جاتی ہے۔
اس دن میں نے اپنی رائے کو محفوظ رکھنا سیکھا۔ میں اپنی والدہ کا احسان مند ہوں کہ بچپن میں ہی حقوق العباد کے اس اہم اصول سے روشناس کیا۔ اس کے بعد زندگی میں جب جب اس اصول سے رو گردانی کی تو نقصان اٹھایا۔ قارئین آپ سب سے التماس ہے کہ اپنے والدین، بہن، بھائی، شوہر، بیوی، دوست، دفتر کے ساتھی وغیرہم کی پسند اور رائے کا احترام کریں۔ ردعمل دینا بھی ہو تو ایک مناسب اور ٹھہراو کا انداز اختیار کریں۔
مصلوب واسطی انجینئرنگ کے شعبہ سے وابستہ ہیں، بحیثیت بلاگر معاشرتی ناہمواریوں اور رویوں کے ناقد ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn