اوہ افسوس ہوا ان کے بیٹا ہوا لیکن بیٹا ہونے پہ افسوس کیوں، یہ بھی ایک بھید ہے میرے مالک کا اس نے دنیا میں ہی آزما لیا، وہ بچہ جو ذہنی طور پہ کم یا اس میں کچھ ڈس ایبیلیٹیز ہوتی ہیں وہ ماں باپ کے لیے ایسا ہی قابل رحم رویہ بن جاتا ہے جو لوگ روا رکھتے ہیں. جس کو دیکھو افسوس کررہا ہے، ان ماں باپ پہ قابل رحم کا لیبل لگ جاتا ہے. کوئی ان کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھتا کہ ان پر کیا گذر رہی ہے اور وہ اس صدمے سے کیسے گذر رہے ہیں. ہر طرف سے تحقیر اور مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، ایسے خاندان اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں تاکہ دنیا کی قابل رحم نظروں سے بچ سکیں، دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ یہ سب بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے . اللہ نے انھیں اس قابل سمجھا تو اس آزمائش میں ڈالا ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ان کے سارے جسم میں کیڑے پڑگئے تھے اور اگر کوئی کیڑا گر جاتا تو دوبارہ اٹھا کر زخم پر ڈال دیتے تھے کہ اللہ نے تیرا رزق یہاں اتارا ہے.
اسپیشل بچے اللہ کی طرف سے ایک ایسا تحفہ ہیں جو ماں باپ کی آزمائش کے ساتھ ساتھ ان کی نجات کا ذریعہ ہیں، یہ بچے معصوم فرشتے ہیں ان سے بھی نارمل سلوک کریں، ان کا خیال رکھا جائے نوکروں اور نرسوں کے حوالے نہ کیا جائے کیونکہ اس قسم کے بچوں کے ساتھ غلط اور نازیبا حرکات عام ہیں، بے غیرت اور بے شرم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان بچوں کے پاس دماغ تو ہے نہیں یہ کسی سے کیا شکایت کریں گے لیکن بھول جاتے ہیں کہ تمام جہانوں کا بنانے والا تو دیکھ رہا ہے. ماں باپ کو اپنے خصوصی بچوں کا خاص خیال رکھنا چاہیئے ،اگر کوئی نرس یا نوکر رکھا جائے تو اس کی نگرانی بھی کی جائے کہ وہ بچے کا خیال کیسے رکھ رہیں ہیں. ان بچوں کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے کیونکہ وہ تو خود کچھ نہیں بتا سکتے. روزانہ نہلائیں ، دوائیں وقت پر دیں، ان کی اسپیچ تھراپی کروائیں تاکہ وہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں گفتگو کر سکیں. اب تو خصوصی بچوں کے اسکول کھل گئے ہیں. ان میں ایسے بچوں کو داخل کروائیں تاکہ وہ بھی کارآمد شہری بن سکیں. گھر میں موجود دوسرے بچوں کو ان سے محبت اور روادای سے پیش آنے کے لیے کہیں، انھیں سمجھائیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک تحفہ ہیں اور ان سے محبت سے پیش آنے پہ اللہ آپ سے خوش ہوگا، اللہ کی خوشنودی کے لیے آپ کو ان کے ساتھ کھیلنا ہے ان کا خیال رکھنا ہے.
خصوصی بچوں میں ذہنی معذور بچے ہوں ان میں، بصارت سے محروم، سماعت سے محروم، گویائی سے محروم، کسی جسمانی عضو سے محروم بچے بھی شامل ہیں. یہ بچے ان اسکولوں سے تعلیم حاصل کرکے جاب بھی کرتے ہیں، ہم سب کو ان کا ساتھ دینا ہے اور ان سے ناروا سلوک نہیں کرنا بلکہ ان کا خصوصی خیال رکھنا ہے. نابینا افراد کے لیے بریل سسٹم میں تعلیم کے بہت مواقع ہیں بہت سے نابینا افراد تعلیم حاصل کرکے بڑے بڑے عہدوں پہ نوکریاں کررہے ہیں . پاکستان کی نابینا کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ اور کئی میچز جیت چکی ہے. قوت گویائی اور سماعت سے محروم بچوں کے لیے اشاروں کی زبان میں تعلیم کے ذرائع ہیں، یہ بچے اشاروں کی زبان میں تعلیم حاصل کرکے مفید کام کرسکتے ہیں اب تو اشاروں کی زبان میں موسیقی کی تعلیم بھی دی جارہی ہے تو ایسے ماں باپ آگے بڑھیں اور اپنے بچے کی کمی کو کارآمد بنائیں تاکہ شرمندگی محسوس نہ ہو. اللہ تعالیٰ بڑا غفور ورحیم ہے اگر وہ کسی ایک چیز کی کمی کرتا ہے تو دوسری صلاحیت اتنی اجاگر کر دیتا ہے کہ وہ شخص بھی سر اٹھا کر جی سکے. ذہنی معذور بچوں کے لیے الگ سے خصوصی اسکول ہیں وہاں ان کی ذہنی استعداد کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور ایسے بچے اپنی ذہنی صلاحیت کو آسانی سے بڑھا لیتے ہیں.
ایک اور بیماری ہے ڈس لیکسیا ، بہت سے والدین اس کو سمجھ ہی نہیں پاتے اور اپنے بچے کو کند ذہن سمجھتے ہیں. اس میں بچہ آہستہ سوچتا ، سمجھتا ہے، گنتی اور حروف تہجی کے کچھ الفاظ اسے بالکل لکھنے نہیں آتے، ملتی جلتی اشیاء میں تمیز نہیں کرسکتا، مختلف حروف کی شناخت میں دشواری، تحریر کرتے وقت ایسے الفاظ استعمال کرنا جو بے معنی ہیں، مگر ڈس لیکسیا افراد کے لیے بامعنی ہوتے ہیں. ایسے بچوں یا افراد کے لیے خصوصی پروگرام مرتب کئے جاتے ہیں جس میں ان کو مختلف مضامین لکھنے کو دیے جاتے ہیں، باآواز بلند پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے. ماں باپ کی خاص توجہ اور اساتذہ کا مثبت رویہ بچے کا اعتماد بحال کر سکتا ہے . ان بچوں کو کلاس میں نالائق، کند ذہن، اور غبی سمجھ کر کلاس میں نظرانداز کرنے کے بجائے ان کی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کریں، انھیں ان کے انداز میں تعلیم دیں.
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کوئی چیز ناکارہ نہیں بنائی اسی طرح ہر انسان اپنی جگہ اہم ہے. اللہ کی رضا میں راضی رہ کر ان خصوصی بچوں کی تعلیم وتربیت کی جائے تو یہی بچے ماں باپ کے لیے بہترین ثابت ہوں گے. ان بچوں کے ارد گرد رہنے والے افراد کوبھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی پڑے گی اور ان خصوصی بچوں سے بھی اس طرح سلوک کرنا پڑے گا جیسے نارمل بچوں کے ساتھ کرتے ہیں. ان بچوں کے ماں باپ کی مدد کرنا ہوگی تاکہ وہ بھی اس معاشرے میں پرسکون زندگی گذار سکیں. اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک ہدایت دے اور اللہ کے احکامات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا کرے آمین.
فری لانس کہانی نگار، کالم نگار اور بلاگر ہیں۔ ہفت روزہ، روزنامہ اور بلاگنگ ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ بلاگ قلم کار سے لکھنے شروع کئے۔ کہتی ہیں کتابیں تو بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں اب تو دہرا رہے ہیں۔ ان کا قلم خواتین کے حقوق اور صنفی امتیاز کے خلاف شمشیر بے نیام ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn