مجھے ٹیلی ویژن سے کوئی بیر نہیں طریقہ کار سے ہے لیکن ٹیلی ویژن کا کیا رونا رویا جائے ، اخباری صحافت بھی اسی صف میں شامل ہے وہ لکھا جائے جسے پڑھتے ہی قاری اگر فوری طور پر فوت نہ ہو تو کم از کم خلجان میں ضرور مبتلا ہو جائے ۔خبر کی تعریف چار طرف کی بات ہؤا کرتی تھی اور یہ کہ جو لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچے، اب یک طرفہ بات کو بھی خبر کہتے ہیں اور شادی ، خلع اور طلاق بھی خبروں کے زمرے میں آگئے ہیں۔مثلا پہلے کوئی بے ایمانی یا چوری چکاری کرتا تھا تو خبر بنتی تھی۔اب اگر کوئی ایمان داری کا مظاہرہ کرے چاہے وہ خوف اور بزدلی کے باعث ہی کیوں نہ ہو تو بریکنگ نیوز بنتی ہے ۔
ایک سب سے پہلے کا چکر ہے جسے انگریزی میں ایکسکلوسئیو کا نام دیا جاتا ہے۔ سب سے تیز رپورٹر خبروں کو یوں سونگھتے پھرتے ہیں جیسے شکاری کتے شکار کو، ان کا بس چلے تو خبریں خود بنانے لگیں اور ہمیں کیا پتہ کہ بناتے بھی ہوں۔
پوری دنیا میں ذرائع ابلاغ کے جدید ترین آلات اور ابلاغی اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے اس کے لئے ادارے اپنے ٹریننگ سینٹر بناتے ہیں جہاں وہ یونیورسٹیوں سے نکلے ہوئے نوجوانوں کی تراش خراش کرتے ہیں کہ وہ کہیں بھی رہیں کسی ادارے میں بھی کام کریں پتہ چلے کہ کچُھ سیکھ کر کچُھ پڑھ کر اس میدان میں آئے ہیں ہمارے ہاں جو چند لوگ اپنی الگ شناخت رکھتے تھے وہ بھی صحافت کے گدلے تالاب میں اپنی پہچان کھو چکے ہیں ۔ میڈیا مالکان بادشاہ گر بنے ہوئے ہیں۔ کسے چڑھانا ہے ؟کسے اتارنا ہے ؟ کسے کتنا وقت دینا ہے؟ کس سے کتنے پیسے اینٹھنے ہیں ؟انہیں ہر گر آتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے، ایم کیو ایم کو لے کر گھنٹوں بیٹھے رہتے تھے لایعنی باتیں کرتے تھے لندن میں بھائی کے ہاتھ کی بنی حلیم کی مدح میں یہاں چینلز پر مشاعرہ برپا ہوتا تھا اس میں کیا نجم سیٹھی اور کیا حامد میر سبھی یہاں سے ادرک اور تلی ہوئی پیاز ڈال رہے ہوتے تھے،اور اب ۔۔۔پھرتے ہیں بھائی خوار کوئی پوچھتا نہیں۔ وقت وقت کی بات ہے۔
عوام کو دہشت زدہ کرنے والے مولویوں سے میڈیا والے ایسے بچتے اور چھپتے پھرتے تھے جیسے کوا غلیل سے۔ جب سے اُنہوں نے میڈیا کی دو چار ویگنوں کو دیا سلائی دکھائی ہے، پانچ سات رپورٹروں کے تیجے چالیسویں کا بندوبست کیا ہے، وہ ہر وقت دامادوں کی طرح ان کے گھر میں ہی بیٹھے رہتے ہیں۔جن لوگوں نے معصوم اور بے گُناہ لوگوں کے ِقتل پہ خوشیاں منائیں ، اعترافِ جرم کیا کہ اسلام کی ترویج کے لئے یہ کام ہم نے کیا ہے ، قتل پہ تاویل و دلیل لے کر آئے وہ اب میڈیا کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے ہیں۔
بھیا یہ پاکستان ہے یہاں سوائے محروموں اور مجبوروں کے ہر کسی کا کوا سفید ہے اور بگلا کالا ۔الیکشن آیا چاہتے ہیں۔ ان کی قلابازیاں آپ خود دیکھ لیں گے۔جمہوریت کی درویشی اور مارشل لاء کی سُلطانی دونوں کی خُدائی میں جمہور کا بھلا نہیں ہوا۔ لوگ پھر بھی خوابوں کے خریدار ہیں۔اِس گھور اندھیرے میں جُگنو کی چمک پہ خُوش ہوتے ہیں۔مانا۔۔لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے۔پاکستان میں صاحبانِ علم و اساتذہ پہ یہ پیمبری وقت پہلی بار نہیں آیا۔ یہ دھرتی ادیبوں ، شاعروں ، صاحبانِ فن سے کبھی بانجھ نہیں ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد پہلے چند سال محروموں نے خوابوں کے سہارے گُزار لئے جب حاکموں کی بے حِسی اور گُمرہی دیکھی تو دبے لفظوں میں کہنا شروع کر دیا
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شبِ سُست موج کا ساحل
کہیں تو جاکے رُکے گا سفینہِ غمِ دل
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
پھر نظر اور نظریے سے اختلاف لائقِ تعزیر ٹھہرا۔ بغاوت کے مقدمے بنے۔ دھول چَھٹی تو شاعر جو کسی معاشرے کی خُوش آواز بُلبلیں کہلاتے ہیں۔وہ چمن بدر ہوئے ساحر لدھیانوی کو شورش کاشمیری نے آنے والے وقت کی تصویر کھینچ کر ہندوستان کا رستہ دکھایا۔ چلئے اچھا ہی ہؤا ۔سجاد ظہیر ہندوستان چلے گئے۔
فلسفی ، ادیب ، شاعر ، اُستاد وہ لوگ ہوتے ہیں جو نسلوں کی تربیت کرتے ہیں اُردو ادب میں بغیر پڑھے تنقید کرنے والوں کی کمی نہیں کبھی کچُھ عالی دماغ قرتہ العین حیدر کے آگ کا دریا کا موازنہ معاصرین کے ناولوں سے کرنے لگتے ہیں۔ اگر قرتہ العین حیدر کے افسانوں کو نفی بھی کر دیا جائے تو پھر بھی
آگ کا دریا،آخر ِ شب کے ہم سفراوراگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجئواُنہیں اُردو ادب میں زندہ رکھنے کے لئے کافی ہیں۔ قرتہ العین حیدر پاکستان آئیں اور سازشوں کا شکار ہو کر واپس ہندوستان چلی گئیں۔ حضرت ِ جوش اُردو کی محبت میں گرفتار ہو کر پاکستان آئے ورنہ پنڈت جواہر لال نہرو جیسا قدردان دوست اور ملیح آباد میں آم کے آبائی باغات اُن کے گُزر اوقات کے لئے کافی تھے۔ جوش اپنی یادوں کی بارات میں رقم طراز ہیں "نہرو نے مجھ کو لاکھ لاکھ روکا ، مگر اُردو کی لگن ایسی تھی کہ میں نہرو کی نم آلود پلکوں سے گُزرتا ہوا پاکستان آگیا ۔ میرے پاکستان آتے ہی یہاں کے سب اخبار مُجھ پر بھونکنے لگے”
جوش سے خُود دار شخص کو بھی کہنا پڑا کہ
نگاہِ گرم سے حالت ہو دل کی اور تباہ
ترا یہی ہے ارادہ اگر تو بسم اللہ
صحافتی بد دیانتی کی ایک سیاہ مثال اُن سے وعدہ کرنے کے باوجود اُن کا انٹرویو ظاہر کر دیا گیا ۔وہ معتوب ٹھہرے اور اگر اُن کے قدردان نہ ہوتے تو بھوکوں مرتے۔
ایک شاعر کہتا رہا
نثار میں تری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
ایک شاعر کہتا رہا
مرے غنیم نے مُجھ کو پیام بھیجا ہے
تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
ایک شاعر نے اصرار کیا
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صُبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn