اس حقیقت سے تو انکار ممکن نہیں کہ پنجاب کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ لاہور اور اس سے ملحق اضلاع پر خرچ ہوتا ہے،،اورنج لائن ٹرین، میٹرو بس سروس اور اب اس بس سروس سے منسلک ( پنجاب سپیڈو) جس میں کم و بیش 200 بسیں لاہور کے مختلف علاقوں سے میٹرو بس کے روٹ کے ساتھ لنک کی گئی ہیں صرف ان مںصوبوں پر ہی 300 ارب روپے سے زائد خرچ کیے جا چکے ہیں جبکہ اربوں روپے کی سبسڈی ان منصوں کے لئے الگ مختص کی جار رہی ہے ۔اسی طرح لاہور کی متعدد سڑکیں آئے روز کارپٹنگ کے نت نئَےمنصوبوں کا حصہ بنتی نظر آتی ہیں ۔بنی بنائی سڑک راتوں رات اکھاڑ دی جاتی ہے اور اگلی شب یہ سڑک کارپٹ کی جارہی ہوتی ہے۔ یہی صورتحال ہمیں لاہور قصور روڈ یعنی فیروز پور روڈ، لاہور ننکانہ صاحب ، لاہور شیخوپورہ روڈ، شیخوپورہ فیصل آباد روڈ،لاہور گوجرانوالہ روڈ، ملتان روڈ لاہور تا اوکاڑہ ،دیپالپور، حویلی لکھا کی سڑکوں تک نظر آتی ہے مگرجب اسی نوعیت کےوسائل جنوبی پنجاب کے عوام کو فراہم کرنےکی بات کی جائےیا کوئی دل جلا جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا روتا نظر آئے تواس آواز کودبانے کے لئےاس کا گلا تک گھونٹنےکی کوشش کی جاتی ہے جس کی تازہ ترین مثال جمشید دستی کی گرفتاری اور اس کے ساتھ جیل میں روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ہے۔جمشید دستی کے ایشو پر پھر کبھی بات کروں گا فی الوقت میں آپ کو جنوبی پنجاب کے عوام سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی ایک چھوٹی سے جھلک دکھانے کی کوشش کرتاہوں جس سے آپ کے لئے اس نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہیں ہو گا کہ جنوبی پنجاب کے رہنے والے اس صوبے کے باسی نہیں ہیں بلکہ ان کی زندگی، حقوق سے خالی غلامانہ کلچر کا حصہ ہے۔اسے آپ تخت لاہور کی غلامی کہیں یا تخت رائیونڈ کی غلامی کا نام دیں مگر یہ حقیقت ہے کہ جنوبی پنجاب میں (اساں قیدی تخت لاہور دے) کا نعرہ مقبول ہو رہا ہے۔
قارئین ،میں آپکو جنوبی پنجاب کے عوام سے روا رکھے جانے والے جس امتیازی سلوک کی معمولی سے جھلک دکھلانےکی بات کر رہا ہوں اس کا مشاہدہ آپ خود بھی لاہور سے تقریبا پونے دو سو کلو میٹر دور ضلع پاکپتن اور جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کو ملانے والی سڑک کے نظارے سے کر سکتے ہیں۔ یوں تو یہ سڑک محض 12 کلو میٹر طویل ہے مگر یہ سڑک صوبے میں بننے والی اربوں روپے مالیت کی سڑکوں سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہے ،لاہور سے قصور ،دیپالپور اور پاکپتن تک پوری سڑک ہی کارپٹ اور بہترین ہے مگر جیسے ہی یہ سڑک جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولنگر کی طرف رواں دواں ہوتی ہے تو پھر نہ پوچھئے کیا تباہی ہوتی ہے یہاں سفر کرنے والا مسافر دوبارہ یہاں سے گزرنے کی توبہ کرتا ہے اور شائد یہ اسی توبہ کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک کوئی اچھی اور اے سی ٹرانسپورٹ سروس اس روٹ پر شروع نہیں ہو سکی۔ پاکپتن کے علاقے راکھ پل روڈ سے شروع ہونے والی یہ 12 کلومیٹر کی چھوٹی سی سڑک جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول نگر سے ملاتی ہے ۔دوسرے الفاظ میں یہ سڑک وسطی پنجاب اور جنوبی پنجاب کے عوام کے لئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے۔اس سڑک کے بننے سے پنجاب کے دونوں اطراف کے عوام کا فاصلہ 70 کلو میٹر کم ہوجاتا ہے جبکہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے کی مسافت سمٹ کر چند منٹوں کی رہ جاتی ہے۔
اس سڑک کی تاریخی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دوسرے دور حکومت میں ضلع بہاولنگر کی تحصیل منچن آبادسے منتخب رکن قومی اسمبلی سید محمد اصغر شاہ کے مطالبہ پر دریائے ستلج پر ایک پل تعمیر کرنے کے منصوبے کی منظوری دی مگر شو مئِی قسمت محترمہ کی حکومت ختم ہوتے ہی اس مجوزہ پل کا منصوبہ بھی بیچ چوراہے کے مانند پھوٹ گیا ۔12 سال بعد 2008 میں پیپلز پارٹی کی وفاق میں دوبارہ حکومت بننے پر دوبارہ اس پل کے منصوبے کی منظوری دی گئی اور آصف علی زرداری نےایوان صدر میں علامتی طور پر ایک تقریب میں پل کا سنگ بنیاد رکھا اور پھر اپنے ہی دورے حکومت میں اس منصوبے کا افتتاح کیا ،وفاقی حکومت نے منصوبے کے مطابق پل کے دونوں اطراف میں تین تین کلومیٹر سڑک بھی تعمیر کروادی جبکہ ضلع بہاولنگر کی حکومت نے سڑک کی اہمیت کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے علاقے میں دریائے ستلج کے پل کے آگے ماڑی پتن سے منچن آباد تک سڑک کو چوڑا بھی کردیا اور اس کی کارپٹنگ بھی کروا دی مگر پاکپتن میں راکھ پل روڈ سے ستلج پل تک 12 کلو میٹر سڑک کا ٹکڑا گزشتہ پانچ سال سے بنایا نہیں جا سکا ، اور یہاں کے عوام ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سفر کرنے پر مجبور ہیں، دس منٹ کا سفرڈیڑھ گھنٹے میں ہوتا ہے اور یہاں چلنے والی گاڑیوں کا نقصان الگ ہوتا ہے
خود کو شیر شاہ سوری قرار دینے والے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی جنوبی پنجاب کے عوام سے روا رکھے جانے والے امیتازی سلوک کے رویہ کو اپنی حکومت کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا قرار دیا ہے مگر کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ وسطی اور جنوبی پنجاب کو ملانے والی یہ چھوٹی سے سٹرک ان کی عقابی نظروں سے کیوں اوجھل ہے ؟
باقی یہاں محرومیوں کی خوفناک تصویرکشی کسی دوسرے کالم میں کروں گا جس میں یہاں کے ہسپتالوں ، تعلیمی اداروں اور دیگر اداروں میں عوام کی بدحالی کا منظر ہو گا ۔
قمرالزمان بھٹی ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور صحافتی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑنے کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستگی کے ساتھ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے مسلسل تین سال رکن اور پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے، طبقاتی نظام اور ان کے نمائندوں ک خلاف کھل کر لکھتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn