Qalamkar Website Header Image

امانت دار خائنین-سبطین نقوی امروہوی

شاعر ہو یا ادیب، کہانی نویس ہو یا کالم نگار، صحافی ہو یا کوئی محقق، عالم ہو یا طالب علم، سب کو ہی اپنے قلم کی رشحات اور اپنے ذہن کی ایجادات و پیداوار سے بے پناہ لگاؤ اور محبت ہوتی ہے. یہ محبت اس حد تک رگ و پے میں اتر جاتی ہے کہ ہمارے استاد نے ہم سے بطور نصیحت فرمایا تھا، جب بھی کوئی تحریر لکھو یا ترجمہ کرو تو تصحیح کے لیے ہمیشہ کسی دوسرے کا انتخاب کرنا، آدمی خود سے یہ کام نہیں کر سکتا، جس طرح ماں کو اپنے بچوں میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ویسے ہی لکھنے والے کو اپنی تخلیق میں کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی.
اب یہ فیصلہ کرنا تو مشکل ہے کہ میں اپنے کس سن و سال کی تحریر کو باقاعدہ تحریر کا نام دوں، لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ میں نے کئی سال پہلے واقعہ کربلا پر ایک مقالہ لکھا تھا، ایک دوست نما نے کہا مجھے دے دو میں اسے کالج کے رسالے میں چھپوا دیتا ہوں. ہم نے اٹھا کر جوں کا توں تھما دیا. تین ماہ بعد جب رسالہ ہمارے ہاتھ لگا تو تحریر تو پوری کی پوری ہماری تھی لیکن نام کسی اور کا تھا. یہ وہ پہلا موقع تھا جب ایک امانت دار خائن سے پالا پڑا۔
چونکہ اس وقت تک نہ لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ سیکھی تھی اور نہ اس امانت داری کے خیال نے دماغ میں خطور کیا تھا لہذا کوئی نقل بھی اس تحریر کی موجود نہ تھی.ہم دل کو دلاسا دے بیٹھے .
پھر ایک دفعہ یہ ہوا کہ ہم ایک جگہ مباحثہ کر رہے تھے کہ اچانک ایک بحث چھڑ گئی. عادت سے مجبور ہو کر ہم یک دم مثل بر سر فراز منبر بیٹھ گئے اور اس موضوع پر تمام دلائل و بیانات جوش خطابت کے ساتھ نقل کر ڈالے. کچھ عرصے بعد جب ہم نے وہی باتیں ایک جگہ حقیقی منبر پر بیان کیں تو بعد میں ایک صاحب کہنے لگے قبلہ آپ نے تو یہ ساری تقریر فلاں صاحب کی فلاں دن کی تقریر سے اٹھائی ہے. کچھ لمحے کے لیے تو سر بلپ کی طرح پھک سے ہو گیا. معلوم ہوا اس دن اس فاضل دوست نے پوری گفتگو موبائل میں ضبط کر لی تھی.
پھر ایک ایسا عظیم دور آیا جسے سوشل میڈیا کا دور کہتے ہیں۔ اس دور کی اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں. کیوں کہ یہاں سب کو سبھی سے خطرہ ہے. اپنی پونچھ میں آگ لگا کر لنکا ڈھانے والے ہنومان ہر ایک آستین سے سانپ بن کر برآمد ہوتے ہیں.ان کے مختلف درجات و طبقات ہیں.
کچھ تو وہ ہیں جو بنا نام کے نقل تو کرتے ہیں لیکن اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتے. یہ ستائش کے قابل ہیں کیوں کہ ان کی یہی مہربانی کیا کم ہے کہ وہ تحریر کو من و عن نقل کر دیتے ہیں. البتہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر متن میں موجود مطالب پر کوئی سوال یا اعتراض ہو جائے تو یا تو بھاگے ہوئے آتے ہیں اور جواب طلب کرتے ہیں اور وہ جواب بھی بنا نام کے ہی لگاتے ہیں یا پھر خود سے بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یا یوں بھی ہوتا ہے کہ تحریر کو اڑنا پڑ جاتا ہے.
دوسرا گروہ نام بھی نہیں لکھتا اور تحریر میں اپنی جانب سے اچھے خاصے تصرف کے بعد پھول بوٹے بھی لگا دیتا ہے تاکہ اس کے اس حسن میں اضافہ ہو جائے جو راقم کے قلم میں تو نہیں تھا لیکن ان امینوں کی گل کاریوں میں ضرور ہوتا ہے.
تیسرا گروہ امانت داری کی عوج بام کو چھوتا دکھائی دیتا ہے. یہ حضرات زیادہ زحمت کے قائل نہیں ہوتے بس یہاں وہاں سے اٹھا کر چسپاں کرنا ان کا اصلی ہنر ہے. بعض اوقات تو شاید وقت کی کمی کے باعث پوری تحریر پڑھ بھی نہیں پاتے. بس پسند کو ظاہر کرتے انگوٹھوں اور مل بانٹنے کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ یہ تحریر اگر ان کے نام سے شائع ہو گی تو اس کے وقار میں خاطر خواہ اضافہ ہو جائے گا. 
یہ افراد اپنی علمی خیانتوں میں بڑے امانت دار واقع ہوئے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ میری یہ تحریر بھی آپ کو میرے کسی امانت دار کرم فرما کے توسط سے پڑھنے کو مل رہی ہو.

حالیہ بلاگ پوسٹس