جولائی کی ٹیکم ٹیک دوپہریا ہے، گلیوں میں سناٹے کا راج اور لو کی چہل پہل ہے۔ گرمی ایسی کہ پسینہ چشمے کی طرح بہہ رہا ہے اور لباس پر جل تھل ایک ہو رہا ہے ۔ کراچی کے پوش علاقے میں ، ایک ادھیڑعمر عورت نہ جانے کہاں سے ماری پھرتی ایک درخت کے نیچے ٹھہری اور پھر اسی درخت کے سامنے والے گھر کی گھنٹی بجا دی۔ اندر سے اسی کی ہم سن عورت نکلی۔یہ وضع قطع سے گھر کی مالکن معلوم ہو رہی ہے۔
مالکن؛ کیا کام ہے بیبی؟
عورت؛ بیبی پیاس سے کلیجا کٹا جا رہا ہے پانی مل جائے گا۔۔۔۔؟
مالکن ؛ ہاں ہاں کیوں نہیں اندر ہی آ جاؤ یہاں تو آگ برس رہی ہے۔
(مالکن دروازہ کھولتی ہے اور دونوں عورتیں گھر کے اندر چلی جاتی ہیں۔ مالکن عورت کو پانی لا کر دیتی ہے اور ابھی صوفے پر بیٹھ کر کچھ پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ اسے یاد آتا ہے وہ باہر کا دروازہ کھولا چھوڑ آئی ہے)
مالکن؛ ارے رکو میں ذرا دروازہ بند کر آؤں جلدی میں بند کرنا ہی بھول گئی۔
عورت؛ ارے بیبی روکو میں زیادہ دیر کے لیے تھوڑی نہ بیٹھوں گی۔ بس دو منٹ رک جاؤ میں واپس نکلوں گی تو اسی وقت بند کر لینا۔
مالکن ؛ اچھا چلو ٹھیک ہے۔ کہاں کی رہنے والی ہو؟
عورت؛ یہیں کراچی میں ہی رہتی ہوں بی بی
مالکن؛ اس علاقے میں کوئی جاننے والا رہتا ہے؟ جو اس طرف آ نا ہوا۔۔۔
(اس سے پہلے کہ عورت اس سوال کاجواب دیتی دو مسٹنڈے ہاتھوں میں بندوقیں لیے گھر میں گھس آئے)
ڈاکو؛ ہاتھ اوپر کرو اور چپ چاپ بیٹھ جاؤ اور کوئی ہوشیاری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے سمجھی۔۔۔!
(مالکن سہم سی جاتی ہے)
دوسرا ڈاکو؛ گھر میں کون کون ہے؟
مالکن؛ (بھراتی ہوئی آواز میں )بس میں اور میری بیٹی اور کوئی نہیں سب باہر گئے ہوئے ہیں۔
پہلا ڈاکو؛ کس کمرے میں ہے وہ ساتھ چل ہمارے۔
(سب اس کمرے میں پہنچے جہاں بیٹی سوئی ہوئی ہے۔ دروازہ زور سے کھلنے اور ڈاکوں کی آوازوں سے لڑکی اٹھ جاتی ہے۔ اور ڈر کے مارے ماں سے لپٹ جاتی ہے)
لڑکی؛ امی یہ کیا ہو رہا ہے یہ کون ہیں؟
مالکن؛ بیٹی تم مت بولنا میں بات کر رہی ہوں۔(ڈاکوں سے مخاطب ہو کر) کیا چاہتے ہو تم؟
پہلا ڈاکو؛ اس کے بتانے کی ضرورت ہے کیا؟ سیف (تجوری) کس کمرے میں ہے ۔۔۔؟سیف کی چابی دو۔۔۔
مالکن ؛ میرے کمرے میں ہے سیف اور چابی تکیے کہ نیچے ہے ، پر دیکھو میری بچی کو ہاتھ مت لگانا ۔
پہلا ڈاکو؛ چلو اس کمرے میں جہاں سیف ہے۔
(سب اس کمرے میں آ گئے ، لڑکی نے زارو و قطار رونا شروع کر دیا۔ پہلے ڈاکو نے تکیے کے نیچے سے چابی نکالی اور سیف کھولنے سے پہلے اس ادھیڑ عمر عورت سے مخاطب ہوا)
پہلا ڈاکو؛ ماں یہ لو رسی اور ان دونوں کے ہاتھ منہ باندھ دو تاکہ جلدی سے کام کر کے یہاں سے نکلیں۔۔
(عورت نے رسی لی اور ان دونوں کے ہاتھ اور لڑکی کا منہ باندھ دیا پر ماں کا منہ کھلا چھوڑ دیا۔ ڈاکوں نے سیف کھولا اور سارا زیور اور نقدی تھیلے میں بھر لی اور نکلنے لگے تو مالکن، عورت سے مخاطب ہوئی)
مالکن؛ ایک احسان کرتی جاؤ،چاہے تو میرا سارا زیور لے جاؤ؛ پرواہ نہیں ، پر میری بیٹی کے زیور میں سے کچھ چھوڑ جاؤ اگلے ہفتے اس کی شادی ہے ، میں کیا دونگی اسے۔۔؟ یہ نگّی بُچِّی سسرال کیسے جائے گی۔۔۔؟
(شادی کا نام سنا تو عورت ایک دم بستر پر بیٹھنے کے انداز میں گر پڑی، اور سرد آہ کھنچی تھی کہ آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے ، ڈاکوں سے مخاطب ہوئی)
عورت؛ بیٹا سارا زیور اور پیسہ واپس رکھ دو۔
ڈاکو؛ کیا ۔۔۔۔۔؟واپس رکھ دیں۔۔۔۔ کیا کہہ رہی ہو ماں۔۔۔۔اگر یہ واپس رکھ دیں گے تو پھر کہاں سے لائیں گے ۔۔۔؟
عورت؛ ہاں ٹھیک کہہ رہی ہوں ، مانا کہ مجبور ہوں اورآج پہلی مرتبہ یہ برا کام کیا اور کامیاب بھی ہو گئی مگر میں اپنی بیٹی کو بیاہنے کے لیے کسی اور کی بیٹی کی آہیں نہیں لے سکتی۔۔۔ کسی اور کی بیٹی کو لوٹ کر اپنی بیٹی کو جہیز میں بددعائیں نہیں دلوا سکتی۔ (یہ کہہ کر ان کے ہاتھ کھول دیے اور سارا زیور اور نقدی واپس رکھنے کے بعد نکلنا چاہا تھا کہ مالکن پکاری)
مالکن؛تمھاری بیٹی کی شادی ہے؟
عورت؛ جی بی بی جی ، معاف کر دیجیے گا ، میری بیٹی کو بددعا مت دیجیے گا ، میں نے جو کچھ بھی کیا مجبوری کے ہاتھوں کیا۔
(عورت اور ڈاکوں نے پھر نکلنا چاہا تو مالکن پکاری)
مالکن؛ ٹھہرو ۔۔۔ کہاں جا رہی ہو روکو۔۔۔
(عورت اور اس کے بچوں نے بڑے ہی حیرت زدہ ہو کر دیکھا۔۔۔۔ مالکن اپنی جگہ سے اٹھی ، سیف کے پاس گئی اور ایک سونے کا جڑاؤ سیٹ اور لاکھ لاکھ کی دو گڈیاں آٹھائیں اور عورت کے ہاتھ میں تھما کر کہا)
مالکن؛ جانتی ہوں کہ زیادہ نہیں ہے پر یہ میری جانب سے اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دینا۔۔۔۔ (اس سے پہلے کہ عورت کچھ کہتی مالکن بولی) بیٹیاں تو سب کی ساجھی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
میں کیوں نہ تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی سمجھوں جبکہ تم نے اس مجبوری کے عالم میں بھی میری بیٹی کو اپنا جانا؛
سچ ہے ، اگر کوئی بڑا دوسری کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھے تو پھر اسے حق ہے کہ اپنی بیٹی کو بھی قوم کی بیٹی جانے ! اگر سربراہان مملکت ہر نکڑ گلی میں قوم کی بیٹیاں کو تحفظ فراہم کریں تو یہ باقیات صالحات ان کی بیٹیوں تک بھی پہنچ جائیں گی…!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn