Qalamkar Website Header Image

فلاحی اداروں کی مشکلات

Noor ul Hudaفلاحی ادارے کسی بھی معاشرے کا حسن ہوتے ہیں ۔ یہ بگڑے ہوئے معاشرے کو سنوارنے اور حقوق سے محروم طبقے کو حق کی فراہمی کا سبب بنتے ہیں ۔ چاہے وہ حق تعلیم کی صورت میں ہویاصحت کی ۔۔۔ بنیادی ضروریات کی تکمیل ہو یا کوئی بھی مالی یا اجتماعی مسئلہ ۔۔۔ فلاحی ادارے حکومتوں کی ذمہ داریاں اپنے سر لے کر ارباب اقتدار و اختیار سے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ حکومتوں کی ذمہ داریاں صرف نعرے بازیوں اور اخباری وعدوں تک محدود ہوتی ہیں جبکہ فلاحی ادارے تواتر کے ساتھ اس خلا کر پُر کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے بڑے بڑے پروگرامات کئے جاتے ہیں جن پر چادر سے باہر نکل کر اور اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرنا پڑتا ہے ۔۔۔ محدود وسائل رکھتے ہوئے بھی فائیو سٹار ہوٹلوں میں چیریٹی پروگرامات کا انعقاد کرنا ، بہتر مالی پوزیشن رکھنے والے افراد کو مدعو کرنا اور ان کے آگے اپنے مسائل اور مشکلات کا تذکرہ کرکے معاونت طلب کرنا تو اب ایک روایت بن چکی ہے ۔۔۔
فلاحی اداروں کو اپنے آپ کو مستحکم اور خدمات جاری رکھنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، اس کا اندازہ ایک مخصوص ’’موسم‘‘ یا مہینہ قریب آنے پر ہی ہوتا ہے ، جب ہرسال بیسیوں فلاحی و رفاہی ادارے و تنظیمیں ہمارے دروازے پر دستک دیتی اور اپنی کاوشیں گنوا کر تعاون (زکوۃ و صدقات اور عطیات) کی اپیل کرتی ہیں ۔۔۔ ان اپیلوں سے بعض اداروں کو مطلوبہ ٹارگٹ حاصل ہوجاتا ہے جبکہ کچھ کے فنڈزکا ایک خطیر حصہ ’’مخیر حضرات‘‘ کو کسی بڑے ہوٹل میں اکٹھا کرنے اور انہیں ’’شایان شان‘‘ تفریح مہیا کرنے پر ہی خرچ ہوجاتا ہے لیکن وہ مقصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں ۔۔۔
مجھے یہ جان کر بہت حیرانی ہوئی جب ایک معروف گلوکار کو ایک فلاحی ادارے کے فنڈریزنگ پروگرام میں مدعو کیا گیاتو اسے شرکاء کو محظوظ کرنے کے 8 لاکھ روپے ادا کیے گئے ۔۔۔ اسی طرح ایک معروف شاعر نے ایک ادارے کی فنڈریزنگ مہم میں آمدورفت اور قیام و طعام کے علاوہ اپنے فن کیلئے نصف لاکھ روپے بطور معاوضہ طلب کیے ۔۔۔ کچھ شخصیات تو اداروں کی فنڈریزنگ مہمات میں حاصل ہونے والی رقم پر باقاعدہ پرسنٹ ایج طے کرکے اپنا فن پیش کرتی یا شریک ہوتی ہیں ۔ آپ یقیناً مجھ سے اختلاف کریں گے لیکن کھلاڑیوں ، گلوکاروں ، اداکار ، شعراء ، ذرائع ابلاغ سے وابستہ بعض شخصیات کی نیک مقصد یعنی غرباء ، یتامیٰ و مساکین کیلئے زکوٰۃ و عطیات وغیرہ اکٹھا کرنے والے اجتماعات میں آمد کیلئے یوں ’’چھپڑ پھاڑ‘‘ پیسے وصول کرنا میرے نزدیک غیراخلاقی و نامناسب فعل اور ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے مترادف ہے ۔
فلاحی اداروں کو ایک بڑا مسئلہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے یہ بھی درپیش ہے کہ وہ انہیں بطور ایک ’’ملٹی نیشنل کمپنی‘‘ ڈیل کرتے ہیں ۔۔۔ جبکہ آگہی اور مقصد کی ترویج کیلئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی انہیں مناسب کوریج کا حق میسر نہیں ہے ۔ اس مقصد کیلئے انہیں شعبہ مارکیٹنگ رجوع کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ۔
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو فلاحی ادارے اپنی خدمات کی ترویج کیلئے مخیر حضرات کے ساتھ ساتھ مختلف عالمی اداروں سے بھی فنڈز لیتے ہیں وہ آزادا نہ کام نہیں کرسکتے اور زیادہ تر انہی کے دئیے گئے فلاح و بہبود کے پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں جس سے انکی خدمت کا سفر محدود رہتا ہے ، اس کے برعکس جو ادارے اپنے زور بازو پر وسائل اکٹھے کررہے ہیں ، انہیں زیادہ وسیع پیمانے پر اور آزادانہ کام کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔۔۔ تاہم دونوں طرز کے ادارے قابل قدر ہیں کہ وہ پسے ہوئے اور وسائل سے محروم طبقات کیلئے کام کررہے ہیں ۔
گذشتہ دنوں ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ کے دورہ کا موقع ملا جس نے 2005ء کے زلزلے میں معذور ہونے والے افراد کو مفت مصنوعی جسمانی اعضاء لگانے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ مذکورہ مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اب یہ ادارہ ضرورتمند خصوصی افراد کو ہزاروں ، لاکھوں روپے والے مصنوعی اعضاء انتہائی سستے داموں فراہم کررہا ہے ۔ مانسہرہ میں واقع ان کا واحد ہسپتال یہ فریضہ سرانجام دے رہا ہے جبکہ ملک کے بیشتر حصوں میں ان مقاصد کیلئے قائم سستے ہسپتال فنڈز اور دیگر وسائل کی قلت سے بند ہوچکے ہیں، جوکہ معاشرے کیلئے بہت بڑا نقصان ہے ۔
’’اخوت‘‘ نے چھوٹے قرضے دے کر ہزاروں بیروزگاروں کو برسرِ روزگار کیا ۔ اس کا ساتھ دینا بھی صدقہ جاریہ ہے کہ اس نے ایسے لوگوں کو معاشرے کا عضوِ معطل بننے سے بچاتے ہوئے انہیں مالی سہارا دیا ۔۔۔
’’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘ نے کم وسیلہ خاندانوں کے بچوں کیلئے ملک کے پسماندہ دیہاتوں میں قائم کئے گئے 672 سکولوں میں 42 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق طلبہ و طالبات کی تعلیمی کفالت کرکے پاکستان کو خواندہ بنانے کا بیڑہ اٹھایا ۔ خدمت کے 20 سالہ سفر میں خصوصی بچوں کیلئے سپیشل تعلیمی منصوبہ اور غریب اقلیتوں کیلئے الگ سکولوں کے قیام کے ذریعے انہیں تعلیم کا بنیادی حق فراہم کرنے جیسی کاوشیں بھی غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے کارناموں میں شامل ہیں۔ اسی کارکردگی کے اعتراف میں حکومت پنجاب بھی بیشتر منصوبوں میں ٹرسٹ کو ہمراہ رکھے ہوئے ہے ، تاہم دیہاتوں میں فروغِ تعلیم کا عمل تواتر کے ساتھ جاری رکھنے اور 42 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت کیلئے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کو فنڈز درکار ہیں جس کیلئے ہر ادارے کی طرح اس کی نگاہیں بھی مخیر حضرات کی جانب اٹھتی ہیں۔
’’فاؤنٹین ہاؤس نے بے سہاروں اور معذوروں کو زمانے کی تھپیروں سے بچایا اور انہیں اپنی چاردیواری میں لابسایا ۔۔۔ ’’رائزنگ سن‘‘ معذور بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مند بنانے کی ذمہ داری بخوبی نبھا رہا ہے ۔۔۔ تو ’’الخدمت فاؤنڈیشن‘‘ نے یتامیٰ کی کفالت ، تعلیم، صحت ، رہائش ، روزگار اور راشن کی فراہمی جیسے بے شمار بنیادی مسائل کا احاطہ کیا اور اپنے بیسیوں پراجیکٹس کے ذریعے لاکھوں سفید پوش لوگوں کو مستحکم کیا ۔۔۔ ’’سندس فاؤنڈیشن‘‘ایک عرصہ سے تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کا علاج کررہی ہے ۔۔۔ جبکہ شوکت خانم ہسپتال کی خدمات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔
ان تمام اداروں کی کئی سالوں کی جدوجہد استقامت اور عزم کی داستانیں ہیں جن کی تصدیق مختلف معروف شخصیات اور اداروں نے بھی کی ہیں اور آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے اور ان کی شفافیت کی گواہی دی ہے ۔۔۔ بلاشبہ مذکورہ ادارے دئیے گئے عطیات کے بہترین مصرف ، شفاف استعمال کی ضمانت اور این جی اوز کا حسن ہیں ۔۔۔ اگر ہم بالغ النظری سے جائزہ لیں ، اداروں کی سکروٹنی کریں تو مختصر چھانٹی کے بعد اہل فلاحی و رفاہی ادارے سامنے آجاتے ہیں ، جن کے وسائل تو زیادہ نہ ہوں لیکن معاشرے کیلئے خدمات اضافی ہوں ۔۔۔ مذکورہ ادارے کوئی روایتی فلاحی ادارے نہیں ہیں بلکہ بہترین خدمت خلق ، سماجی رویوں میں تبدیلی اور معاشرتی ضروریات کے بنیادی عناصر سے عہدہ برآء کرنے کے ضمن میں مفلوک الحال طبقات کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں ، انہیں زندہ رہنے کے اسباب اور نسبتاً مناسب زندگی مہیا کئے ہوئے ہیں ۔ یہ مبارک مشن ہے جو عبادت کے برابر اور سیاست سے کئی درجے بہتر خدمت ہے ۔
یہ فلاحی ادارے ہی ہیں جنہوں نے اپنی خدمات کو بنیاد بناکر معاشرے میں اپنا اعتبار برقرار رکھا ہوا ہے ۔ انہیں بطور کمرشل ادارہ ڈیل کرنا زیادتی ہے جس پر ذرائع ابلاغ اور شخصیات کو نظرثانی کرنی چاہئے ۔۔۔ ان کے حاصل کردہ وسائل غرباء ، یتامیٰ اور مساکین کی امانت ہیں ، لیکن زیادہ سے زیادہ فنڈز اکٹھا کرنے کے چکر میں ان کے بجٹ کا ایک اہم حصہ ان پروگرامات اور اشتہارت کی مد میں یا معروف لوگوں کے ذریعے تشہیر پر خرچ ہوجاتا ہے ۔۔۔ حالانکہ اس رقم سے کتنے ہی بچوں کو تعلیم مل سکتی ہے ، کتنے بیروزگاروں کو روزگار ، بیماروں کو صحت ، بھوکوں کے کھانے کا انتظام ہوسکتا ہے ۔۔۔ ذرا سوچئے کہ یہ فلاحی اور رفاہی ادارے ان لوگوں کیلئے کام کررہے ہیں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے ، جو حالات سے مجبور ہوکر فاقہ کشی کرتے ہیں ، جن کے گھر چولہا تو جلتا ہے لیکن انہیں بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر آتی ہے ۔۔۔ وہ تن تو ڈھانپتے ہیں لیکن ان کے بچے اپنے جیسے دیگر بچوں کے وسائل پر حسرت کی نگاہ ڈالتے ہیں ۔ وہ دن کو کنواں کھودتے اور رات کو پانی پیتے ہیں ، ان حالات میں روکھی سوکھی پر اکتفا کرنا ہی ان کا معمول ہے ۔ ایسے میں وہ اپنے پیٹ کا ایندھن بجھانے کیلئے ہاتھ پیر مارتے ہیں تو اپنے بچوں کی تعلیم و صحت کے معاملات پر توجہ نہیں دے پاتے ۔ یہ فلاحی و رفاہی ادارے نچلے طبقے کا احساس محرومی دور کرکے اس فرض کو ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو درحقیقت حکومت کے بعد معاشرے کا اجتماعی فرض ہے لیکن سوسائٹی اپنی اس ذمہ داری سے عہدہ برآء نہیں ہورہی ۔
کہتے ہیں کہ کسی قوم کو پرکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ اپنے غریب اور نادار لوگوں کے ساتھ رکھا گیا رویہ اور برتاؤ ہے ۔ کسی معاشرہ کے مہذب ہونے کیلئے یہی دلیل کافی ہے کہ وہ اپنے ارد گرد موجود مجبور و بے کس اور ضرورتمند لوگوں کو خودانحصار بنانے کی جانب کتنی توجہ دیتا ہے ۔۔۔ اس ضمن میں پاکستانی قوم کی فراخ دلی اور ایثار کا اعتراف تو عالمی سطح پر بھی ہوتا ہے کہ یہ بھرپور جذبے کے ساتھ فلاحی کاموں میں اپنا حصہ ڈالتی ہے ۔ پاکستانی قوم صدقات و خیرات کی مد میں مستحقین پر سالانہ تقریباً 200 ارب روپے سے زائد کے عطیات صرف کرتی ہے ۔۔۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ معاشرے کے مسائل وسائل کے علاوہ سماجی رویوں سے بھی مشروط ہیں ۔ ہمیں ایک ڈویلپنگ سوسائٹی درکار ہے جس کیلئے ابلاغی حکمت عملی اور سائنٹیفک سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے فلاحی ادارے ناکام ہوئے اور رویے تبدیل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ اس ضمن میں کمیونٹی موبلائزیشن کیلئے ابلاغ کے مختلف طریقوں سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے ۔۔۔ جب متوسط طبقے کے لوگوں کے حالات زندگی بہتر کرنے کیلئے معاشرے کا ہر فرد انفرادی سطح پر کردار ادا کرے گا اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے گا تو ہی قوم کی حالت بدلے گی ۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈویلپنگ سوسائٹی کے لئے ہم انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر اپنا کردار نبھائیں ، تقاضوں کو سمجھیں اور اس ضمن میں بڑے اور وسیع پیمانے پر کمیونٹی موبلائزیشن کریں تاکہ ہم ایک باشعور شہری بن سکیں ، کہ یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور ہماری اخلاقی و قومی ذمہ داری بھی اور اخلاقی گراوٹ سے نکلنے کا راستہ بھی ۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس