وہ 28 جولائی 2010 کی ایک ٹھنڈی صبح تھی.موسم، برسات کی بارشوں کی وجہ سے خوشگوار تھا. میں بستر سے جدا نہیں ہوا تھا کہ اچانک خبر آئی: ایر بلیو کی فلائٹ 202 کی وہ پرواز جس نے بےنظیر انٹرنیشنل ایرپورٹ پر اترنا تھا وہ مارگلہ پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہو گئی ہے. وہ دن اسلام آباد اور اس سے ملحقہ آبادیوں کے لیے قیامت صغریٰ جبکہ 146 مسافروں کے گھروں میں قیامت عظمیٰ کا دن تھا. ان بےچارے مسافروں میں سے کوئی بھی موت کو شکست نہ دے سکا…
اسکے بعد ایک دو ہفتے مختلف ٹی وی چینلز پر سوگ کا سا سماں رہا… اس پرواز میں جاں بحق ہونے والے مختلف پیشوں سے متعلق تھے… کبھی کسی نابغہ طالب علم کے یہاں کی صف ماتم دکھائی جاتی تو کبھی کسی کے تاجر کے یہاں کی، جس کا پورا خاندان اس واقعے میں لقمہ اجل بن گیا تھا…
اب نام تو یاد نہیں رہا لیکن…! اتنا یاد ہے کہ جہاز کے عملے میں سے ایک ہوائی میزبان خاتون کے گھر کی داستان کافی دن تک خبروں کی زینت اور دلوں کی رنجیدگی کا باعث رہی تھی… وہ اپنے خاندان کی واحد کفیل تھی… اور یہ پیشہ اس نے مجبوری کے ہاتھوں شکست کھا کر اپنایا تھا…
آپ کہیں گے میں یہ سات سال پرانی داستان آج دھرا کر کیوں پرانے زخم ہرے کر رہا ہوں….!؟
ایک ہفتے سے کسی ادھیڑ عمر پی آئی اے کی ملازمہ ہوائی میزبان خاتون کی ایک تصویر گردش کر رہی ہے… باقیوں کو اس کے چہرے پر کیا دکھا وہ تو وہی جانیں مجھے تو کرب کا ایک عالم دکھا جو وہ اس عمر میں اپنے چہرے پر سجائے دنیا کے سامنے ایک سوال بنے کھڑی تھی…!
کیا میں اسی وقت عزت کے قابل ہونگی جب خدانخواستہ کوئی جہاز گر کر تباہ ہو گا اور اس میں میری لاش کے چھتڑے اڑ جائینگے…؟ کیا میرے چہرے پر پڑی جھریاں اور شکنیں اسی وقت قابل رحم قرار پائیں گی جب میرا چہرہ پہچان کے قابل نہیں رہے گا…! کیا کسی دردناک موت مرنے سے پہلے مجھے جینے کی سزا یوں ملے گی…! لیکن میں پھر بھی دعا کرتی ہوں کہ خدا سب کی ماؤں بہنوں کو مجبوریوں کے ہاتھوں مجبور ہونے سے محفوظ رکھے…!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn