8مارچ کا دن دنیا بھر میں انٹرنیشنل وومینس ڈےیعنی عالمی یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے،تاکہ سماج میں موجود جنسی امتیاز کو کم کیا جا سکے۔
1908میں 15000خواتین نے نیویارک میں مارچ کیا اور اس مارچ کا بنیادی مطالبہ عورتوں کے لئے کام کے اوقات کو نسبتاً محدود کرنا ،انہیں بہتر اجرت اور ووٹ کا حق د لانا تھا ۔اسی واقعے کی یاد میں 1909 ء میں اٹھائیس فروری کو خواتین کا پہلا ’’عالمی نیشنل ڈے‘‘ اور 1911ء میں 19 مارچ کو پہلا ’’خواتین کا عالمی دن ‘‘ منایا گیا ۔لیکن1977 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر سال 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن سے منسوب کیا جائے گا۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں گو کہ اسے مختلف طور پر منایا جاتا ہے کہیں خواتین کا بنیادی مطالبہ مردوں کے برابر تعلیم اور ملازمت کے مواقع کے حصول کا مقصد ہے تو کہیں ان کی سیاسی عہدوں پر بلا امتیاز تقرر ی کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ کچھ علاقوں میں محض اس خاص دن پر خواتین کو معاشرے سے مجموعی طور پر عزت و احترام دلانے کی بات کی جاتی ہے تو کہیں اس دن کا انعقاد خواتین سے متعلق محبت اور حوصلہ افزائی کے جذبات کے اظہار کی خاطر کیا جاتا ہے ۔

یہ اچھی بات ہے کہ پاکستان میں بھی 8 مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔مختلف قسم کے پروگرام کیے جاتے ہیں، ریلیاں نکالی جاتی ہیں ، ٹی وی شوزکیے جاتے ہیں ۔ لیکن اگر پاکستان میں عورتوں کی حالت پر نظر ڈالیں تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جس کا جشن منایا جائے۔یوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ جشن صدیوں کے اندھیرے میں ایک دن کا اجالا ہے۔لیکن اس اجالے کی اپنی معنویت ہے ،جس سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہیے۔
عورتوں کا عالمی دن ملکی و قومی ترقی میں بھی اہم عنوان کا درجہ رکھتا ہے۔ عورت کو با اختیار بنانے میں بڑھتی آبادی جیسے چیلنج سے نمٹنے کے قفل کی چابی ہے۔ عورت کا روزگار کے حصول، معاشی خودمختاری اور اقتصادی میدان میں بھرپور کردار نام نہاد جی ڈی پی کی نمو میں اہم اشاریوں کے ساختیاتی جمود توڑنے کا سبب ثابت ہوسکتا ہے۔ حکومت و ریاست کو یہ باور کرنے کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے کہ ہرچند کہ عورتوں کی بابت جو کچھ فی زمانہ کیا گیا ہے، وہ سب کچھ اچھے اقدام کے طور پر لئے جانے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ مزید کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں آج بھی صنفی تشدد، کام کی جگہ پر استحصال اور اسی طرح کے دوسرے مسائل سے عورت دوچار ہے۔اس دن کو منایا جانا ایک اہم بات ہو سکتی ہے۔لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ان بنیادی مسائل سے نجات یا ان میں کمی کے لیے کیا عملی اقدام کیےجا رہے ہیں؟بات جنسی تناسب کی ہو یا عورتوں کی تعلیم کی ہر جگہ جنسی امتیاز کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے۔
پاکستان میں ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے خواتین کے حقوق کیلئے قانون سازی میں کسی حد تک بہتری آئی ہے حالانکہ ابھی بھی مزید قانون سازی، پہلے سے موجود قوانین میں بہتری اور ان کو معاشرے پر عملی طور پر نافذ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔مثال کے طور پرپنجاب ویمن ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس ایکٹ 2012ء منظور ہو ااور اس کے تحت تمام اداروں میں کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف ضابطۂ اخلاق وجود میں آیاجس کے تحت ہر سرکاری و نجی ادارے، جہاں خواتین کام کر رہی ہوں، وہاں تین رکنی کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیاگیا ۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تو قانون بن گیالیکن اس کا اطلاق ایک مشکل امر ہے۔آپ کسی بھی سرکاری یانجی ادارے کو دیکھ لیں وہاں ایسی کسی کمیٹی کا وجود ہی نہیں ہے۔
بنیادی طورپراس دن مختلف قسم کے پروگرام پوری دنیا میں کیے جاتے ہیں۔یہ پروگرام جنسی امتیاز ات کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔یہ ایک طرح کی بیداری ہے کہ لوگ اس بارے میں سوچ سکیں ، عملی قدم اٹھا سکیں ۔یہ دن دنیا بھر میں اس لیے منایا جاتا ہے کہ جنسی مساوات قائم کیاجا سکے یعنی وہ تمام حقوق جو مردوں کو بہ آسانی حاصل ہیں عورت کو بھی دلائے جا سکیں۔
اس ضمن میں گزشتہ سال شروع ہوئی ‘می ٹو موومنٹ’ کا ذکر بھی ضروری ہے جس کے تحت دنیا بھر کی عورتوں نے اپنے ساتھ ہوئے جنسی استحصال اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات شیئرکیے۔ان بنیادی باتوں سے قطع نظرزمینی سچائی کی بات کریں تو ورلڈ اکانومک فورم کے مطابق 2186تک جنسی امتیاز برقرار رہے گا۔ ورلڈ اکانومک فورم 2017کیGlobal Gender Gap Report کے مطابق دنیا بھر میں مرد وعورت کی درمیان عدم مساوات کو ختم ہونے میں تقریبا ً200سال کا عرصہ اور درکار ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn