"دو میں سے ایک چنو ـ سنگھرش کا بھنور یا اتہاس کے کچرے کا ڈھیر”
1985 کی ہندی فلم "Aghaat” مزدور سیاست اور اس سے جڑے مسائل کا نظریاتی تجزیہ ہے ـ فلم میں ایک جانب مارکسسٹ بنیادوں پر قائم مزدور یونین ہے جو مارکسی نظریات کے مطابق محنت کشوں کے مفادات اور سرمایہ داروں کی منافع خوری کے گرد سیاست کررہی ہے ـ دوسری جانب ابھرتی ہوئی پاپولسٹ مزدور یونین ہے جو تشدد، غنڈہ گردی اور بڑے بڑے نعروں کی آڑ میں سرمایہ داریت کے ساتھ سمجھوتوں کا خواہاں ہے ـ مارکسسٹ یونین کو پاپولسٹ عناصر کی جانب سے سنگین چیلنج درپیش ہے ـ
پاپولسٹ نعروں اور متشدد طور طریقوں سے متاثر مزدور سمجھتے ہیں ان کے مفادات کی حقیقی نگہبان مارکسی فلسفے پر کاربند نرم خو لیڈر شپ نہیں بلکہ تشدد اور طاقت کی زبان میں بات کرنے والے رہنما ہیں ـ
لینن ازم کا پیروکار کامریڈ مادھو ورما (اوم پوری) مارکسزم کے فلسفے "دنیا کے مزدوروں ایک ہوجاؤ” کے نعرے کی رو سے مزدور اتحاد کی جدوجہد کررہا ہے ـ مادھو ورما سمجھتا ہے وہ نظریاتی تقاریر اور مکالموں کے ذریعے مزدوروں میں طبقاتی شعور پیدا کرکے ان میں ایک ہونے کا احساس پیدا کرسکتا ہے ـ اس کی پوری جدوجہد کا مطمعِ نظر ایک سنہرا مستقبل ہے ـ وہ اس سنہرے مستقبل کے حصول کی خاطر نہ صرف نظریے پر سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں ہوتا بلکہ وہ عمل میں بھی کسی پس و
پیش کا قائل نہیں ہے ـ
کامریڈ مادھو ورما کی نظریاتی استقامت کو اس کی کمزوری مان کر رستم پٹیل (نصیرالدین شاہ) مزدور تحریک میں تشدد کا عنصر شامل کرتا ہے ـ پرتشدد تحریک اور لمپن عناصر کی موجودگی کی وجہ سے رستم پٹیل کی یونین مارکسیوں کے لئے مسائل پیدا کردیتا ہے ـ رستم پٹیل کے مطابق سنہرا مستقبل محض ایک سہانا خواب ہے جس کے حصول کی خاطر مزدوروں کے آج کو قربان نہیں کیا جاسکتا ـ اسی اصول کو سامنے رکھ کر وہ نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے نظام میں رہ کر عارضی مفادات کی بات کرتا ہے ـ سیاسی شعور سے عاری مزدور طاقت اور عارضی مفادات کی جانب لپکنے لگتے ہیں ـ
مارکسسٹ یونین کی اعلی قیادت رستم پٹیل سے نمٹنے کے لئے اسی کے طور طریقوں کو استعمال کرنے کی وکالت کرتے ہیں ـ اس وکالت کو مارکسی دانشور چکرادیو (امریش پوری) کی تائید بھی حاصل ہوتی ہے ـ کامریڈ ورما اسے نظریاتی پسپائی سمجھتا ہے ـ
پوری فلم مارکسسٹ قائدین کے آپسی مباحثوں، مزدوروں کے بنیادی مسائل ، سرمایہ داروں اور پاپولسٹ یونین کے گٹھ جوڑ اور مارکسزم و پاپولزم کے درمیان کشمکش پر مبنی ہے ـ مڈل کلاس طبقے کا دونوں طرف جھولتا کردار بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے ـ تضادات اتنے شدید ہوجاتے ہیں مزدور سرمایہ دار سے لڑنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر تل جاتے ہیں ـ کامریڈ ورما اس صورتحال سے دلبرداشتہ ہونے ہی والا ہوتا ہے کہ کامریڈ چکرادیو اسے بتاتا ہے کہ عظیم مقاصد اہم ہوتے ہیں چاہے ان کے حصول کے لئے مزدور کو مزدور ہی کا قتل کیوں نہ کرنا پڑے ـ
وجے ٹنڈولکر کا اسکرین پلے بدلتے معروض اور منجمد مارکسزم سے مشتق ہے ـ اس اسکرین پلے کو متوازی سینما کے ہونہار ہدایت کار گووند نہلانی نے کمالِ مہارت سے فلمایا ہے ـ فلمی سیٹ کی ترتیب میں جزئیات کا بھی خیال رکھا گیا ہے ـ فیکٹری کے ماحول کی عمدہ منظر کشی سے صورتحال کو سمجھنے میں اچھی مدد ملتی ہے ـ
کامریڈ ورما کے کردار میں اوم پوری نے اچھے فن کا مظاہرہ کیا ہے ـ ان کی اداکاری پر تصنع کا شائبہ بھی نہیں ہوتا ـ مشکل فیصلوں کے دوران ان کی پریشانی اور نظریاتی سمجھوتوں کے سیکوینسز میں چہرے پر شرمندگی کے آثار ان کی اداکاری کو حقیقت بنادیتے ہیں ـ مارکسی دانشور کے کردار میں امریش پوری، بیمار مزدور کے کردار میں پنکج کپور اور فیکٹری انتظامیہ کے افسر کے کردار میں سداشیوامرپرکار کی اداکاری بھی سراہے جانے کے مستحق ہیں ـ بیمار مزدور کی بیوی کے کردار میں غریب اور خاموش عورت کا روپ دھارنے والی دیپا ساہی کو خراج پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی ـ ان کا کردار مختصر مگر جاندار ہے ـ
یہ ایک بہترین آرٹ فلم ہے ـ افسوس آج کل اس قسم کے موضوعات پر دھیان نہیں دیا جارہا حالانکہ سماج میں آج بھی محنت کشوں کے بنیادی مسائل اور مارکسی دانشوروں کا نظریاتی انجماد اپنی جگہ برقرار ہے بلکہ 1985 کی نسبت یہ کیفیت شدید تر ہے ـ
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn