.سو لفظوں کی کہانی کے ایک ایک.لفظ میں سو سو کہانیاں
پتا نہیں کتاب کا رنگ پیلا ہے یا اورنج پر سرورق بہت اعلٰی ہے
وسعت اللہ نے بہت خوبصورتی سے لکھا اور خوب لکھا
مبشر زیدی خانیوال سے ہوتے ہوے امریکہ اور یورپ کے لکھاریوں سے ملواتے ہوئے واپسی 100 لفظوں کی کہانی کی طرف پلٹتے تو ہیں پر قاری پلٹنا بھول جاتا ہے …
بہت سی کہا نیاں جو اس کتاب میں شامل ہیں ان کا پس منظر بھی بیان کیا ہوا ہے
کہیں ماں کی یاد میں جذباتی کہانی ہے تو کہیں ملک کے حالات حآضرہ کی صورتحال
اگر کسی کہانی میں رکشے والے کا حوصلہ دکھایا ہے تو وہیں کتابوں کے ساتھ کیا جانے والا موجودہ سلوک بے حد خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے.
میں نے تقریبا تمام کہانیاں جنگ اخبار میں پڑھ رکھی ہیں پر اس کے باوجود مبشر زیدی کی شخصیت کو سامنے رکھتے ہوئے پڑھیں تو کہانیوں کے حصار سے نکلنا مشکل ہو گیا …بہت سی کہانیاں ہڈ بیتی ہیں اور بہت سی جگ بیتی ہیں.
کئ بار سوچا کہ اس کہانی کو لکھتے ہوئے الفاظ کم تو نہین پڑ گئے تھے پھر دوبارہ پڑھی تو اپنے اپ کو ہی کوسا ایسا نہیں ہے.
چار کہانیاں ایسی بھی ہیں جو اخبار میں ناقابل اشاعت ٹہریں ….اخبار والے بھی عبجیب من کے موجی ہوتے ہیں …جسے ایک دفعہ نہ کہہ دیا تو کہہ دیا
جگہ جگہ خوبصورت اشعار سے بھی کتاب کی خوبصورتی کو اوج کمال بخشا گیا ہے…
ایک.بات پر میں بہت خوش ہوئی کہ” سو لفظوں کی سو کہانیان پڑھتے پڑھتے میں بھی سینچری میکر بن گئ.”.
مبشر علی زیدی!
آپ سے انتہائی معذرت کے ساتھ. …مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں آپ کی کہانیوں پر تبصرہ کروں….نہ مین نقاد نہ لکھاری .نہ ادب سے کوئی واسطہ …
"سو لفظوں کی کہانی” کی تیسری بار اشاعت کی مبارک باد قبول کریں.
ڈاکٹر زری اشرف ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ساتھ سوشل ورکر بھی ہیں۔ اور اس کے علاوہ مطالعہ کی بیحد شوقین۔ قلم کار کے شروع ہونے پر مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکھنا بھی شروع کر دیا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn