کربلا میں جس مقام پر جنابِ علی اکبرؑ شہید ہوئے اُسے موقع الاستشھاد علی الاکبرؑ کہا جاتا ہے۔ یہاں بطور نشانی ایک چھوٹا سا حجرہ بنادیا گیا ہے جہاں زائرین آتے ہیں، نوحہ خوانی، ماتمداری کرتے ہیں، سوز و سلام پڑھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں۔
میں رات کے وقت یہاں گیا تھا، شاید عشاء کا وقت ہوگا۔ زیارت کرنے کے بعد تصور کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اکسٹھ ہجری میں یہ جگہ کیسی نطر آتی ہوگی، نہ یہاں کوئی تنگ سی گلیاں ہونگیں اور نہ یہ پرانے طرز کے بنے ہوئے گھر۔ یہ خیامِ حسینیؑ سے کافی فاصلے پر موجود ایک بیابان ہوگا جہاں لڑتے لڑتے علیؑ اکبر پہنچ گئے تھے، جہاں بعد ازاں امام حسینؑ بھی کہنیوں کے بل پہنچے تھے۔
ایسے ہی منتشر خیالات میں محو تھا کہ اچانک پاکستان کے سرائیکی علاقے کی خواتین کا ایک گروپ وہاں آگیا جن میں کچھ ادھیڑ عمر اور کچھ ضعیف خواتین موجود تھیں۔ ان میں سے ایک ضعیف خاتون ایسی تھیں جنہوں نے اُس حجرے کی دیواروں پر لکھی ہر دعا کے بوسے لینے شروع کیئے اور جہاں جہاں جنابِ علی اکبرؑ کی تخیلاتی تصویر آویزاں تھی، اُسے روتے ہوئے "میں بسم اللہ کراں، میڈا سوہنڑا اکبرؑ” کہتے ہوئے چومتی چلی گئیں۔ کسی تصویر کو ہاتھ سے مس کرکے ہاتھ آنکھوں پر لگاتی تھیں اور پھر اگلی تصویر کی طرف بڑھ جاتی تھیں۔ روتی جاتی تھیں اور تصویروں کو چومتی جاتی تھیں۔ بالکل ایسے جیسے ایک بوڑھی ماں اپنے جواں سال مقتول بیٹے کی تصویر چوما کرتی ہے۔
۔
چھ محرم کا دن عموما شہادتِ علی اکبرؑ سے منسوب ہوتا ہے۔ حسینؑ کا وہ بیٹا جو صورت و سیرت میں شبیہ پیغمبرؑ تھا۔ امام حسینؑ کا جب اپنے نانا کی زیارت کا دل چاہتا تھا تو وہ علی اکبرؑ کا چہرہ دیکھ لیا کرتے تھے۔ فرحت عباس شاہ نے اسی مناسبت سے ایک شعر بھی کہا ہے:
۔
"اُنہوں نے پھر بھی محمد(ص) سمجھ کے مارا اُسے
اگرچہ اُن کو پتہ تھا، پسر حسینؑ کا ہے۔۔!
۔
علی اکبرؑ صورت میں ہمشکلِ پیغمرؑ تھے تو اخلاق و گفتار میں بھی اپنے جد کی شبیہ تھے۔ کہتے ہیں کہ اکبرؑ اپنی والدہ اُمِ لیلیؑ سے کہا کرتے تھے کہ آپ کھانا تیار کرتے ہوئے گھر کی چمنی کو کھلا رہنے دیا کیجئے تاکہ وہاں سے دھواں باہر جائے اور کھانے کی خوشبو کی وجہ سے اگر آس پاس کوئی بھوکا موجود ہو تو وہ ہمارے گھر کھانا کھانے بطور مہمان آجائے۔
بعض روایتوں کے مطابق علی اکبرؑ کی عمر 18 برس جبکہ بعض مقاتل اُن کی عمر 25 برس بتاتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے اُنہیں علی الاکبرؑ کہا گیا اور امام زین العابدینؑ کو علی الاوسط۔ یہی وجہ ہے کہ جب واقعہ کربلا کے بعد ابن زیاد نے امام سجادؑ سے اُن کا نام پوچھا اور آپ نے جواب میں علی بن حسینؑ بتایا تو اُس ملعون نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ علیؑ بن حسینؑ کو تو ہم قتل کرچکے۔ پس، امام سجادؑ نے جواب دیتے ہوئے کہا وہ میرا بھائی علی اکبرؑ تھا۔
سوچتا ہوں کہ کس دل سے امام سجادؑ نے ان سوالوں کے جواب دئے ہونگے۔
بہرحال ہمارے ہاں عموما جنابِ علی اکبرؑ کی عمر 18 برس ہی بتائی جاتی ہے اور یہی ہم بچپن سے مجالس میں سنتے آئے۔
۔
علی اکبرؑ کی والدہ جنابِ اُم لیلیؑ طائف کے ثقفی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ابی مرّہ کی بیٹی تھیں۔ اُن کے دادا عروہ بن مسعود وہ شخص تھے جنہیں رسولِ کریم(ص) نے عرب کے چار شیوخ میں سے ایک شیخ قرار دیا تھا۔ عروہ بن مسعود صلح حدیبہ میں شامل قابلِ ذکر عرب اکابرین میں شامل تھے۔ یہ وہی عروہ بن مسعود تھے جنہوں نے رسولِ کریم(ص) سے ملاقات کے بعد اپنے قبیلے والوں کو بتایا تھا کہ میں نے فارس، افریقہ اور روم تک کے حکمرانوں سے ملاقات کی ہے لیکن محمد(ص) جیسا رہنما اب تک نہیں دیکھا جس کے ماننے والے لوگ اُس کا اس قدر احترام کرتے ہیں کہ ادب میں اُس کے چہرے کی جانب بھی نہیں دیکھتے۔ یہاں تک کہ وہ وضو کرتا ہے تو یہ اُس کے وضو کا پانی اکٹھا کرتے ہیں۔ بعد ازاں عروہ بن مسعود نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن وہ جیسے ہی اپنے قبیلے میں واپس پہنچے اور اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو اُن کے قبیلے والوں نے اُںہیں پتھروں سے حملہ کرکے شہید کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ رسولِ اکرم(ص) نے عروہ بن مسعود کو موازنہ حضرت عیسیؑ پر جان قربان کرنے والے حبیب النجار سے کیا تھا۔ وہی حبیب النجار جس کا تذکرہ سورہ یسین میں موجود ہے۔
۔
جناب اُم لیلیؑ کے والد ابی مرہّ انہی عروہ بن مسعود کے بیٹے تھے، جنہیں رسولِ کریم(ص) نے اُن کے اسلام قبول کرنے سے قبل عرب کے چار اہم شیوخ میں سے ایک اور اسلام قبول کرنے کے بعد حبیب النجار سے تشبیہ دی تھی۔ یہ جنابِ اُم لیلیؑ کے والد کا تعارف تھا۔
جبکہ جناب اُمِ لیلیؑ کی والدہ کا نام میمونہ تھا اور وہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ یعنی مختصرا بات کریں تو کربلا میں جناب علی اکبرؑ کے مقابل اپنی والدہ کے ماموں زاد بھائی (امیر شام) کے بیٹے یزید کا لشکر تھا اور ایک جانب اپنے والد حسین ابن علیؑ کا لشکر۔ یہی وجہ ہے کہ جب لشکر یزید میں سے ایک شخص نے علی اکبرؑ کو اُن کی رشتے داری یاد دلاتے ہوئے امام حسینؑ کا ساتھ چھوڑنے کا مشورہ دیا تو علی اکبرؑ نے اُسے للکارتے ہوئے جواب دیا کہ میرا اُس شخص سے کوئی تعلق نہیں جس کی جد نے جنابِ حمزہؑ کا کلیجہ چبایا تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علی اکبرؑ میدانِ کربلا میں اپنے جد رسول کریم(ص) اور اپنی والدہ اُم لیلی کے جد عروہ بن مسعود الثقفیؑ کے نمائندہ بن کر آئے۔
۔
یہ اُس علی اکبرؑ کا تذکرہ ہے جس نے اپنے والد حسینؑ ابن علیؑ سے پوچھا تھا کہ "بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اگر ہم حق پر ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے کہ موت ہم پر آئے یا ہم موت پر آ جائیں”۔
۔
معروف بزرگ سوز خواں جناب اشرف عباس مجلس شامِ غریباں میں مرحوم مولانا سید حسن امداد کا لازوال کلام "کربلا ہوگئی تیار، تقدم ولدی” پڑھا کرتے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے اکثر علماء، مصائیب علی اکبرؑ پڑھتے ہوئے "تقدم ولدی” کہہ کر خود بھی رو دیتے ہیں۔ دراصل یہ تقدم ولدی وہ بوڑھا باپ علی اکبرؑ کو کہہ رہا ہے جو بعد میں علی اکبرؑ کو لڑتا دیکھ کر "مھلا مھلا” کہتا ہوا اُسے میدان سے واپس بلائے گا تاکہ ایک بار اُسے دیکھ سکے۔ تقدم ولدی، یعنی بیٹا آگے بڑھو، کہنے والا بوڑھا باپ وہی ہوگا جو بعد میں کہنیوں کے بل چلتا ہوا اپنے جوان بیٹے تک پہنچے گا۔ تقدم ولدی وہی باپ کہہ رہا ہے جو بیٹے کو رخصت کرتے ہوئے یہ تاکید بھی کررہا تھا کہ جب تک موقع ملے، پلٹ کر مجھے دیکھتے رہنا۔
۔
آیت اللہ نائینیؒ سے منسوب ایک واقعہ ہے کہ ایک روز اُنہوں نے مجلس میں مصائیب علی اکبرؑ بیان کیے اور رات میں خواب میں ابا عبداللہؑ کو دیکھا جن کا جسم تیروں سے ڈھکا ہوا تھا، یہ دیکھ کر وہ گھبرا کر نیند سے بیدار ہوگئے۔ اگلے روز اُنہوں نے ابوالفضلؑ کے مصائیب بیان کیے اور رات کو خواب میں ایک بار پھر امام حسینؑ کو دیکھا۔ اس بار اُن کے جسم پر بس دو تیر تھے۔ آیت اللہ نائینیؒ نے دریافت کیا کہ مولاؑ یہ دو تیر کیوں نہیں نکل سکے؟ جس پر مولاؑ نے جواب دیا کہ تمام تیر عزاداروں کے آنسووں نے نکال دئے لیکن یہ دو تیر کبھی نہ نکل سکیں گے۔ ایک میرے بیٹے علی اکبرؑ کا اور ایک میرے بھائی عباسؑ کا۔
۔
علی اکبرؑ کربلا کے جذباتی، روحانی اور باطنی پہلو کا شباب ہیں۔ امام حسینؑ نے کربلا کے اس کردار کو بہت اہتمام سے تیار کیا ہے۔ مائیں علی اکبرؑ کا سہرا یاد کرکے روتی ہیں، بہنیں صغریؑ کا خط یاد کرکے روتی ہیں، بوڑھے باپ علی اکبرؑ کے مصائیب سن کر اپنے جوان بیٹوں کو تصور کرکے روتے ہیں، بدقسمتی سے اگر جوان بیٹا چل بسا ہو تو بیٹے کو کم، "ہائے ہائے علی اکبرؑ” کہہ کر زیادہ روتے ہیں اور جوان پورا سال انتظار کرتے ہیں کہ صبحِ عاشور وہ اذانِ علی اکبرؑ سنیں، تاکہ دھاڑیں مار کر رو سکیں۔
۔
"اے گُلِ گلزار علی اکبرمؑ”
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn