Qalamkar Website Header Image

پورے آسمان کے برابر کہکشاں

poray-asman-k-brabarبرائے عالمی افسانہ میلہ 2016ء
عالمی افسانہ فورم
افسانہ نمبر 19” پورے آسمان کے برابر کہکشاں ”
شاہد جمیل احمد ، گوجرانوالہ ، پاکستان ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
تمہاری محبت میرے دِل میں ڈر کی طرح بیٹھ گئی ہے۔ ماں سمجھتی ہے میں چھت پر پتنگ اُڑانے آتا ہوں۔ اُسے کیا معلوم کہ چھت پر تو میرا دل پڑا ہے۔ اس نے کچرے میں پڑی گُڑیا کو اُٹھایا ، قمیص سے صاف کیا اور اسے سامنے رکھ کر اس سے باتیں کرنے لگا۔ ماں کو نہ ہی معلوم ہو تو اچھا ہے ، ایک بات تو یہ کہ میری عُمر گُڑیوں سے کھیلنے کی نہیں اور دُوسری بات یہ کہ میری ماں مادی سوچ کی حامل خاتون ہے۔
مُجھے پتہ ہے تمہیں میری دونوں باتیں بُری لگی ہیں۔ اپنی پہلی بات کی تشریح کے طور پر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ از خود تمہیں بھی تو سنجیدہ طبع، بلند شعار اور پُر وقار لوگ اچھے لگتے ہیں۔ تم بھی تو یہی چاہتی ہو کہ جو تمہارا ہو وہ تُمہارے جیسا ہو۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ تُم ایک عام لڑکی نہیں ہو۔ جب تم اپنی عُمر کے مطابق کوئی بات نہیں کرتیں تو میرے لب کیسے ہِل سکتے ہیں۔ تم عام رویوں کی مخالفت کرتی ہو تو میں معمولی کاموں میں اپنی توانائیاں کیسے ضائع کر سکتا ہوں۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہیں جب ہم ایک دوسرے میں رہا کرتے تھے۔ہمارا اٹھنا بیٹھنا، ہنسنا بولنا اور لکھنا کس قدر مختلف ہوا کرتا تھا۔ ہم لوگوں کی شخصیت کتنی جامع اور جاذبِ نظر ہوا کرتی تھی۔ جب تم ہم بن کر اور ہم تم بن کر ایک دوسرے کے سامنے آتے تھے تو کس درجہ فرحت محسوس ہوتی تھی۔
تمہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ روحانی طور پر ہی نہیں ، جسمانی طور پر بھی ہم دونوں کے بدن پیار کی پہلی بارش میں بھیگ کر صندل کے جنگلوں کی طرح مہکنے لگے تھے۔ پھر ہم نے پت جھڑ کا انتظار کئے بغیر اپنے جسموں کے ہرے پتے جھاڑ دیے۔ ہمیں ڈر تھا کہ اگر صرف ہم مہکے تو زندگی کا بھوربن سُونا پڑ جائے گا۔ اور پھر ہم نے اپنے حصے کا پانی اور نمکیات دوسروں میں بانٹ دیے۔ ہم نے یہ سیکھا تھا کہ انفرادی خوشی کا جشن مجموعی معاشرتی بے بسی پر ہنسنے اور ہنسانے کے مترادف ہے۔
تمہاری قسم مجھے اپنی پت جھڑ کا ہمیشہ دُکھ رہے گا۔ تمہیں شاید اس دُکھ کا پتہ نہیں ، تمہیں اس دُکھ کا پتہ ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ میں نے ہمیشہ اپنی تنہائی کا جشن اماوس کی سنسان راتوں میں منایا ، ورنہ تو مجھے ہوا، چاند، ستارے سب پیامبر محسوس ہوتے تھے۔ میں نے جب بھی تمہیں یاد کیا ہمیشہ خود سے نکال کر ہی یاد کیا، بالکل ویسے ہی جیسے تم سونے سے ذرا پہلے اور جاگنے کے بہت دیر بعد تک مجھے اپنے آپ سے نکال دیا کرتی تھیں۔ کیسی عجیب محبت تھی ہماری کہ جس کے زیرِ اثر نہ کبھی تم نے خود کو اپنا سمجھا اور نہ کبھی میں نے اپنے آپ کو اپنا سمجھا۔ کتنے عجیب لوگ تھے ہم بھی ، اپنی آنکھوں پر محبت کی پٹی باندھ کر بھی سب کچھ دیکھ سکتے تھے۔ ہم نے اپنے اردگرد گھومتے کیڑے مکوڑوں کواپنے پاوٗں تلے نہیں روندا ، یہاں تک کہ دانستہ کسی چیونٹی کی جان بھی نہیں لی۔
یاد ہے ایک بار تم نے خاموش رہ کر مجھ سے پوچھا تھا کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے ، میں نے کہا اِنفنٹ ، یعنی اتنی جو کائنات میں نہ سما سکے۔ تم نے سب کچھ جانتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا کہ یہ تو بڑا عام سا جواب ہے۔تمہیں میرے اس عام جواب کی توضیح بھی یاد ہوگی۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ جب میں تمہاری محبت دل میں بھر کر آسماں کی طرف دیکھتا ہوں تو پورے آسماں کے برابر کہکشاں پھیل جاتی ہے۔ نظر تھوڑی نیچے آتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے رُوئے زمیں پر کوئی درخت سُوکھا نہیں رہا ، تمام پیڑ اپنی زمرد پوشاک پر لعل و یاقُوت سجائے کھڑے ہیں۔ سانس لیتا ہوں تو ہوا کے اجزائے ترکیبی تبدیل ہوتے محسوس ہوتے ہیں اور پھیپھڑوں میں صرف ٹھنڈی میٹھی خوشبودار ہوا داخل ہوتی ہے۔ چلتا ہوں تو زمیں کے پاوٗں کی جھانجھن بجنے لگتی ہے اور رکتا ہوں تو وقت رک جاتا ہے ، بیٹھتا ہوں تو پوری کائنات کا گرد و غبار بیٹھنے لگتا ہے، سوچتا ہوں تو سوچوں سے نجات مل جاتی ہے، سوتا ہوں تو نیند آجاتی ہے اور جاگتا ہوں تو خواب کی تعبیر ساتھ ہوتی ہے۔
ہماری محبت کے دیس میں بارود کی گھن گرج کی بجائے فضاوٗں میں میٹھے سُر اور الہڑ تانیں بکھرتی ہیں۔محبت کے دیس میں گولیوں کی جگہ رنگ برستے ہیں اور بارہ مہینے دیوالی کا سمے رہتا ہے۔ میں نے بولتے بولتے آنکھ بھر کر تمہاری طرف دیکھا تو تم جامن کے گھنے سائے میں بیٹھی اس برس آموں کے بُور نہ جھڑنے کا شاہی فرمان لکھ رہی تھیں۔ شاہی فرمان پر دستخط کرنے کی باری آئی تو تم نے قلم توڑ دیا۔ تم اب تک کئی بار شاہی فرمان لکھ کر دستخط کرنے سے پہلے قلم توڑ چکی تھیں ، یہ بات تو میں نے بھی محسوس کی کہ دنیا میں کوئی ایسا قلم نہیں جو تمہارے دستخط کے لائق ہو۔
ہم دونوں کی سوچ میں اتنا فرق ضرور تھا کہ تم محبت کا دیس بسا کر شاہی فرمان پر دستخط کرنا چاہتی تھیں جبکہ میں دستخط کرنے کے بعد محبت کا دیس بسانا چاہتا تھا۔ اب تم کہو گی کہ میں نے کب تم سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اظہار کیسے کرتا کہ ہم دونوں خود سے بے نیاز محبت کے دیس کی آبادکاری کا سوچ رہے تھے۔ ہم دونوں محبت کے معبد میں آشتی کی اذان کے منتظر تھے۔ ہم دونوں پیار کے کلیسا میں گیتا کی حلاوت رچا رہے تھے۔ ہم لوگ گاوٗں در گاوٗں ، بستی در بستی موسم کے سرخ گلاب بانٹ رہے تھے۔ کائنات کا توازن ہمیں اس قدر عزیز تھا کہ ہم دو متوازی خطوط کی طرح کائنات کا چکر کاٹ کر بھی کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں عام لوگوں کی طرح نہ تو ملنے کی جلدی تھی اور نہ خواہش۔ یہ بات تو نہیں کہ ہمیں دوری کا علم نہ تھا مگر کیا کرتے کہ ہمارے کلبد میں انسانی محبت کی روح حلُول کر گئی تھی۔ہمیں اپنے مرتبے تک پہنچنے کے لئے اپنی نہیں بلکہ ہماری ضرورت تھی۔
مجھے تم پر فخر ہے کہ تم کبھی نہیں بھٹکیں ، میں کبھی کبھی بھٹک جاتاتھا، تبھی تو تمہیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں ڈھونڈنے لگتا مگر تم باتوں باتوں میں ، میرا دل دکھائے بغیر ، مجھے اجتماعی انسانی محبت اور فلاح کے آئینے میں اتار لیتیں۔
پتہ ہے! ہم لوگ محبت کی کہانیاں پڑھ کر جھومنے کی بجائے سوچ میں پڑ جاتے۔ کِیٹس سے قدسیہ تک محبت کے بیان نے ہمارے اعصاب شل کر دئیے تھے۔ براوٗننگ سے پریتم تک انفرادی محبت ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی تھی۔ جب ہم ان چھولداریوں سے اپنے سر باہر نکالتے تو ننگے بھوکے انسانوں کو تا حدِ نظر ماتم کناں دیکھ کر اپنے خیموں کی طنابیں کاٹ دیتے ۔ پھر وہی جسموں کو جھلساتی دھوپ ہوتی اور ہمارے ننگے سر۔
ہم بڑے عجیب لوگ تھے ، ہم نے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، ہم نے کہیں اکتفا نہیں کیا ، ہم نے چھاوٗں کو تقسیم نہیں کیا ۔ ہم نے دنیا کی کسی عدالت کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ اس جہاں میں ہمارے حصے کا تعین کرسکے۔ہم نے کبھی انصاف نہیں چاہا بلکہ سدا معاشرے میں انصاف ہوتا ہوا دیکھنا چا ہا۔ ہمارے ہاتھ میں قلم تھا اور دل میں درِ لا مکاں کی طلب۔ سوچنے کی حد تک میں کبھی کبھی ڈنڈی مار جاتا تھا مگر جونہی میرے پیپر ختم ہوتے ، تم فکر مندی سے میری گود میں جاگ کر اپنی ہتھیلی میرے آگے پھیلا دیتیں۔ میں شرارت میں تمہاری ہتھیلی پر اپنا نام لکھ دیتا تو تم گھبرا کر سارے کاغذ الٹ پلٹ کر دیکھتیں مبادا آج کے لکھے میں کہیں میں یا ہم تو نہیں آگئے۔ لیکن ، میں یا ہم کیسے آسکتے تھے کہ لکھنے سے پہلے میرے لئے تمہارے نام کی تسبیح نا گزیر تھی اور تمہارا نام اور تمہارا خیال میرے لئے اتنے معتبر تھے کہ میری ذات کے ذرے خود پسندی کے مدار سے نکل کر پوری کائنات کا احاطہ کرتے ہوئے لفظ محبت کا ورد کرنے لگتے، بس یہی میری عبادت تھی اور یہی میری زندگی کا حاصل۔
پھر میں عام کیسے سوچ سکتا تھا یا عام کیسے لکھ سکتا تھا ، مگر یہ بھی تو حقیقت تھی کہ میری آنکھ عام آنکھ تھی ، میرا دل عام دل کی طرح اور میرا ذہن عام ذہن جیسا تھا۔ میں کبھی کبھی خود کو روتا تھا ، اپنے خانے میں بٹ جاتا تھا ، کبھی کبھی اپنے بارے سوچتا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم بھی اس عذاب سے گزرتی رہی ہو لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے سے اپنی روئی ہوئی اور بوجھل آنکھوں کا تذکرہ نہیں کیا۔ ہم نے کبھی ایک دوسرے کے دل پر تسلی کے ریڈی ایٹر نہیں لگائے۔ بس، جلتی آگ میں یونہی خود کو جلنے دیا اور سوچ کے آتش دان میں مزید لکڑیاں ڈالتے رہے۔
کبھی کبھی میں تھوڑا سا خود غرض ہو کر سوچتاہوں تو ڈر جاتاہوں لیکن تم ٹھیک کہا کرتی تھیں کہ ہماری کوشش کسی دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے اور اپنے خوابوں کی دنیا کے لئے ہے۔ اپنے سوا ہمارا کسی پہ کوئی احسان نہیں۔ ہمارے آدرش ہماری زندگی ہیں اور ہمارا ہونا ان سے مشروط ہے اور ہم اتنے کم دل نہیں کہ ایک زندگی سے ہار مان جائیں۔ اپنی بقا کسے عزیز نہیں ، جیتے جی کون مرنا چاہتا ہے۔ بس یہی وہ بات ہے اور یہی وہ حوصلہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جدا ہونے پربھی زندہ رکھ سکتا ہے، ورنہ یہ زندگی ، یہ زہر پُڑیا کی مار زندگی ہمیں مجبور نہیں کر سکتی۔
ابھی وہ اپنے مکان کی دوسری چھت پر پڑی گڑیا سے باتیں کر رھا تھا کہ ماں نے اسے دوپہر کے کھانے کے لئے آواز دی۔ اس نے جلدی جلدی اپنی گڑیا کوایک کونے میں پڑے کباڑ میں چھپایا اور کل اپنی دوسری بات کی وضاحت کا وعدہ کرکے لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اتر آیا۔ اگلے دن وہ پھر اپنی ماں کے منع کرنے کے باوجود چھت پر آگیا ، ماں چیختی رہی کہ تمہیں دھوپ لگ جائے گی لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ اسے پتہ تھا کہ اس کی ماں موٹاپے کی وجہ سے سیڑھی نہیں چڑھ سکتی اس لئے اس نے اطمینان سے اپنی گڑیا نکالی اور اس سے اپنی دوسری بات شروع کی۔
دوسری بات ماں کی مادہ پرستی سے متعلق تھی ، ماں ہی کیا پورا خاندان بلکہ پورا معاشرہ ظاہری چمک دمک کی لپیٹ میں تھا۔ اور ہاں ! یہ میری ماں کا ہی نہیں بلکہ تمہاری ماں کا بھی مسئلہ ہے ، مسئلہ ہے تو نہیں پر بنا لیا گیا ہے۔ ہم لوگ اسی طرزِ معاشرت کے پروردہ ہیں۔ ہمیں بھی انہی گوشت پوست کی ماوٗں نے جنم دیا ہے۔ تم نے دیکھا !ہم پھر بھی ایک دوسرے سے شرمندہ ہیں ، شاید یہی ہمارا المیہ ہے اور شاید یہی ہمارا دکھ ہے ۔ہم زندگی میں جب کبھی ملیں گے تو اسی دکھ اور اسی کمی کے ساتھ ملیں گے۔ ہم ایک دوسرے کی نظر میں بہت بلند ہیں لیکن کبھی کبھی ایک دوسرے کو بہت چھوٹے لگیں گے، ایسے میں آرام اور چین کی کیا صورت ہو سکتی ہے۔
ہم نے گویا اپنے ہی ہاتھوں اپنے سر قلم کر دیے ہیں۔ ہم نے خود اپنی ستارہ آنکھیں اپنی ایڑیوں تلے رگڑ دی ہیں۔ ہم لوگوں نے اپنے دل پتھرکے کر لئے ، کیا کرتے! ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ آنکھیں اگر دیکھنا چاھتی تھیں تو صرف ایک دوسرے کو ، دل دھڑکتے تھے تو صرف ایک دوسر کے لئے اور ذہن سوچتے تھے تو صرف ایک دوسرے کی خاطر۔ ہم کیسے گزارہ کرتے محدود دل ، محدود ذہن اور محدود آنکھوں کے ساتھ۔ ہمیں تو ماں کے سامنے سرخرو ہونا تھا ، بہن بھائیوں کے لئے مثال بننا تھا ، ہمیں تو دنیا کے ساتھ چلنا تھا۔
ہماری محبت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کواپنے اپنے مدار کی غلام گردش میں رہنے دیا۔ اگر یہ دنیا ہماری نہیں تھی تو ہمیں کبھی اس سے اپنا حصہ وصول کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوئی۔سچی بات ہے کہ میں نے کبھی تمہیں بے مدار کرنے کا نہیں سوچا۔ جس رفتار سے دنیا میں محبتیں نفرتوں میں بدل رہی تھیں اس اعتبار سے شاید یہی اچھا تھا کہ آپس میں دور رہ کر ہی سہی مگر محبت کا بھرم قائم رکھ لیا جائے۔
روتے دلوں اور ہنستے چہرے والے لوگوں کو دیکھ کر خود پہ بھروسہ کرنے لگتا ہوں تو سارہ شگفتہ دل کو پھاڑ دیتی ہے۔ محبت کے جس موسم میں پیار کرنے والے ایک ہونے کا سوچتے ہیں ، میں نے تمہیں زندگی کے تپتے صحرا میں جھلستی ریت پر ننگے پاوٗں چلنے پر مجبور کیا مگر یاد رکھنا کہ میرے اشکوں کی برساتیں اور میرے دل کے تمام موسم تمہارے لئے ہیں، یاد رہے اس بار شاہی فرمان لکھ کر اس پر دستخط کرنا نہ بھولنا ، اس جنم کی قید نہیں کیونکہ سچی کتابوں میں دوسری زندگی کا ذکر ہے۔
اس نے اپنے آنسووٗں کو صاف کیا اور اپنی گڑیا کو کونے میں پڑے کباڑ میں چھپایا اور خود لکڑی کی سیڑھی سے نیچے اتر آیا۔ اس کی شادی کی پہلی شام تھی ، ماں اسے ڈھونڈ رہی تھی۔ حجلہٗ عروسی میں بیٹھی گڑیا اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے خود کو آئینے میں دیکھا، اس کی شبیہہ بالکل اس کے جیسی تھی۔ ویسے بھی دوسری گڑیا کو اصل اور نقل سے کچھ غرض نہ تھی۔ رہا اس کا مسئلہ تو اس نے اپنے آدرشوں پر پیشگی اپنی عمر کے سو سال قربان کر دیے تھے اور اسے پورا یقین تھا کہ اس کی عمر جتنی بھی لمبی ہو جائے ، سو سال سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔

حالیہ بلاگ پوسٹس

کنفیشن باکس

سرد ہوا جیسے رگوں میں خون جمانے پر تلی تھی ۔ رات بھر پہاڑوں پہ برف باری کے بعد اب وادی میں یخ بستہ ہوائیں تھیں ۔ خزاں گزیدہ درختوں

مزید پڑھیں »

کتبہ (افسانہ) غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ

مزید پڑھیں »

داعی (افسانچہ) – ابوعلیحہ

مولانا کمال کے آدمی تھے۔ ستر برس کے پیٹے میں بھی ان کے ضخیم بدن کا ہر ایک رونگٹا، ان کی مطمئن صحت کی چغلی کھاتا تھا۔ ملیح چہرے پر

مزید پڑھیں »