طوری قبیلہ، وادئِ کرم میں دریائے کرم کے دونوں جانب سرسبز و شاداب قطعہ زمین پر تقریباً پانچ سو سال سے آباد ہے۔
بنیادی طور پر خانہ بدوش قبیلہ جب وادئِ کرم میں آباد ہوا تو اپنی محنت و مشقت سے وادئِ کرم کے جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ وادئ کی تقدیر بھی بدل ڈالی اور وادئِ کے زرخیز زمین سے بھر پور فائدہ اُٹھا کر معاشی اور معاشرتی حالات میں انقلابی ترقی لائے۔
وادئِ کرم کے جنوب میں خوست اور شمال میں کوہِ سفید واقع ہے اور کوہ سفید کے اُس پار تورا بورا کی مشہور و معروف پہاڑی سلسلہ جہاں مبینہ طور پر دنیا کے خطرناک ترین دہشتگرد گروہ القاعدہ اور ان کے سربراہ اُسامہ بن لادن کھبی ڈھیرے ڈالے ہوئے تھے۔
مغرب میں افغانستان کے صوبے پکتیکا کے شہرینا اور مختلف گاؤں سمیت پہاڑی سلسلے ہیں جبکہ مشرق میں پاڑہ چمکنی اور اورکزئی ایجنسی واقع ہیں۔
اٹھارہ سو پچاس کے دہائی میں پیواڑ کے ملک ظریف افغانستان کے سردار محمد اعظم خان کے نہایت اہم حمایتی تھے اور شلوزان کے ملک افغانستان کے امیر دوست محمد خان سے ایک شادی کے ذریعے منسلک رہے۔ افغانستان کے امیر دوست محمد خان کے وقت کابل میں کرم ایجنسی شورش کی آوازیں گونجتی رہی اور 1851 میں طوری قبیلے نے پیواڑ قلعے پر قبضہ کرکے افغان امیر کو آنکھیں دکھائیں جو بعد میں بہت بھاری پڑ گئیں جب 1856 افغان امیر نے سردار محمد اعظم کی سربراہی میں مجاھدین بھیج کر طوری قبیلے کو جانی اور مالی نقصان سے دوچار کیا۔ طوری قبیلے کی اس شکست سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اردگرد کے سنی قبائل نے خوستوال اور وزیر قبائل نے کرم ایجنسی پر حملہ کیا جو خوستوال اور وزیر قبائل سمیت دیگر سنی قبائل کے عبرت ناک شکست پر ختم ہوئی۔ طوری قبیلہ سیاسی اور میدان جنگ دونوں محاذ پر ڈٹی رہی اور کامیاب و کامران رہی۔ پھر افغانستان میں امیر شیر علی برسراقتدار آئے اور کرم وادی میں انکے بھائی والی محمد خان گورنر رہے جس کی ماں کا تعلق وادی کرم سے تھا لیکن وادی کرم کے ملک نے وفد کابل بھیج کر امیر شیر علی سے والی محمد کے شکایت کی اور یوں گورنر والی محمد معزول کردئیے گئے۔ انیس سو تیس میں کرم ایجنسی کے تمام سنی قبائل نے شیعہ آبادی پر لشکر کشی کی اور قتل عام کیا۔ یہ وہ دور تھا جب افغانستان میں بچا سقاؤ جیسا سفاک نیم خواندہ مولوی حکمرانی کررہا تھا، بچا سقاؤ کا دور افغانستان میں طالبان کے مُلا عمر کے دور سے بھی زیادہ رجعت پسند اور ظالم دور تھا اور افغانستان ظلم کے زنجیروں میں جھکڑا ہوا تھا، عین اسی وقت پر نادرشاہ، باچا سقاؤ کے افغانستان امارت پر حملہ آور ہوئے تو طوری اور بنگش قبائل نے نادرشاہ کا ساتھ دیا اور طوری قبیلہ مزید مشکلات سے دوچار رہا۔یوں کابل حکومت کی شیعہ دشمنی اور فرقہ ورانہ حکومتوں سے تنگ آکر وادی کرم کے طوری قبیلے نے 1879 میں دوسری افغان جنگ کے وقت برطانوی راج کو خوش آمدید کہا۔ ایک سال بعد برطانوی فوج وادی کرم سے نکل گئی اور وادی کرم کو طوری قبیلے کے حوالے کیا لیکن 1892 میں برطانوی افواج پھر وادی کرم پر قبضہ کر گئے۔ طوری قبیلے کے مشران نے سیاسی، سماجی اور علاقائی تحفظات کے مطالبے کیئے جو سارے کے سارے انگریز حکومت نے تسلیم کیئے یوں رواج اور کرم ملیشیا جیسے دور رس معاہدے طے پا گئے جس کے تحت آج سو سال بعد بھی ہمارے مسائل حل کیئے جا رہے ہیں اور کسی کو اس سو سالہ نظام بدلنے کی اہلیت نہیں اور نہ ہی حوصلہ ہے۔
علاقائی تحفظ کیلئے 1892 میں ایک شاندار طوری ملیشیا کھڑی کر دی گئی جو 1892 اور 1897 جیسے خطرناک ترین جنگوں میں بھی ثابت قدم رہی جبکہ خیبر رائفلز سمیت شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ملیشیا کا نام و نشان مٹ گیا تھا۔
۱۹۴۸ء میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح پاکستان کیساتھ الحاق کیا ۔ طوری قبیلہ کرم ایجنسی کا سب سے بڑا قبیلہ ہے اور واحد پشتون قبیلہ ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعہ بنگش قبیلے کیساتھ مل کر کرم ایجنسی واضح اکثریت میں ہیں۔ لہٰذا یہ ضیاالحق کے سخت گیر اسٹیبلشمٹ کو قبول رہے اور نہ ہی علاقے کی دیگر سنی قبائل کو قابل قبول رہے۔ مذہبی اور مسلکی منافرت کے علاوہ یہاں چونکہ شیعہ سنی ساتھ ساتھ رہے ہیں تو زمین ، پہاڑ اور پانی کے جھگڑے بھی ہوتے رہے ہیں جو بعد میں مذہبی اور مسلکی لڑائی میں بدل کر علاقے کو میدان جنگ میں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ کرم ایجنسی میں شیعہ آبادی کو تین سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا ہے اور یہاں کے اکثریتی شیعہ آبادی کو مسلکی بنیاد پر نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، لہٰذا کرم ایجنسی میں دہشتگردی صرف ایرانی انقلاب یا افغانستان انقلاب سے جوڑنا حقیقت نہیں لیکن "مردِ مومن مردِ حق” ضیاالحق کے پالیسیوں اور ایران انقلاب کے بعد اس میں تیزی ضرور آئی ہے۔ پاکستان میں ایران اور خمینی کے پہلے نمائیندہ عارف حسین الحسینی کا تعلق پاراچنار سے تھا جو پاکستان کے اُفق پر ضیاالحق کے دور میں نمودار ہوئے جبکہ عارف الحسینی سے پہلے زکواة کے معاملے پر اسلام آباد کے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کا فیصلہ کن معرکہ مفتی جعفر حسین نے سر کیا جب مطلق العنان آمر نے گھٹنے ٹیک دئیے اور مفتی جعفر حسین اور ساتھیوں نے ہی پاکستان میں سیاسی جدودجہد جاری رکھنے کیلئے تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ کی بنیاد رکھی، جبکہ عارف الحسینی انکے دست راست بنے رہے۔ بعض نام نہاد مبصرین اور کالم کار تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ کا مفہوم یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں موجود اقلیتی شیعہ مسلک نے یہ تحریک پاکستان میں ایران طرز کا خمینی انقلاب لانے کیلئے بنایا تھا جو تاریخی بددیانتی ہے۔ تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ پاکستان میں صرف شیعہ اقلیتی مسلک کی تحفظ اور خدمت کیلئے بنایا گیا پہلا پلیٹ فارم تھا۔ اور تحریک کا مقصد اور نعرہ پاکستان پر قابض ہونا کھبی نہیں رہا۔
۱۹۲۹-۲۸، ۱۹۵۰ اور ۱۹۵۶ء کے خونریز لڑائیوں کے علاوہ میرے سامنے وادی کرم میں جو خونریز لڑائی گئیں انکا مختصر تاریخ یہ ہے۔
۱۹۸۱-۸۲ میں کرم ایجنسی کے سارے سنی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور دادو حاجی کے سارے خاندان کو ہلاک کیا گیا اور صدہ قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیاگیا جو آج تک آباد نہیں ہو سکے۔ کیونکہ اس وقت تک انگریز کا بنایا گیا کرم ملیشیا وادی کرم میں موجود تھا لہٰذا جنگ صدہ تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک نہیں پھیلنے دی گئی۔ یاد رہے کرم ملیشیا صرف طوری قبیلہ پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں منگل، مقبل، بنگش سمیت ایجنسی کے سارے قبائل کو متناسب نمائیندگی موجود تھی جو کہ اپنے، اپنے علاقے کے امن قائم رکھنے کے ذمہ تھی۔ اس وقت تک ایران کا کوئی مولوی پاکستان میں موجود تھا اور نہ ہی پاراچنار میں۔ بدقسمتی سے ضیااء لحق کے فرقہ ورانہ پالیسیوں کا شکار ہو کر کرم ملیشیا کو برطرف کرکے پورے پاکستان میں پھیلایا گیا، علاقے کو آگ و خون میں نہلایا گیا اور سرسبز وشاداب ، حسین و جمیل اور جنت نظیر وادئِ کرم کو دہشتگردی اور فرقہ واریت کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا جو آج تک نہیں نکل سکا۔
۱۹۸۷-۸۸ ضیاءالحق کے دور میں شیعہ مسلک کے روح رواں اور ملت جعفر یہ کے صف اوّل کے رہنما تحریک نفاذ فقہ جعفر یہ کے روح رواں علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کردیا جو صدہ قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل اور ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور بعد میں طوری لشکر نے پسپا کرکے واپس صدہ کی طرف دھکیل دیا لیکن دسیوں گاؤں جلائے گئے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کردی گئیں۔ ۱۷ دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے جبکہ پاک فوج اور پاکستان کی اسٹیبلیشمنٹ تماشا دیکھتی رہی۔
۱۹۹۶ء میں رسول اللہ صلعم کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا جو کئی ہفتے تک جاری رہا ہائی سکول پاراچنار میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا جسے بعد صدارتی تمغہ دیا گیا، اسکے بعد کرم ایجنسی کے شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پاراچنار تک رسائی کے صرف ایک راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کیا گیا اور پاراچنار پاکستانی غزا میں تبدیل ہوا۔
۲۰۰۱ء میں پھر فرقہ ورانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پھر لشکر کشی کی گئ، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاہ پر بمباری کئ گئی جس میں درجنوں لوگ قتل کیئے گئے۔
۲۰۰۷ میں ۱۲ ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں "حسین مردہ باد اور یزید زندہ باد” کے نعرے لگا کر فرقہ ورانہ جنگ کا آغاز کیا گیا یہ ایک منظم اور منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا حملہ تھا جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے، بڑی تعداد میں القاعدہ جنگجوؤں کیساتھ ساتھ طالبان کے حکیم اللہ محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے سنی قبائل کرم ایجنسی کے شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ القاعدہ اور طالبان کے سینکڑوں نہایت مستعد اور ماہر نشانہ بازوں نے پارچنار شہر میں اہل سنت والجماعت کے مسجد کو سب سے بڑا مورچہ نہیں بلکہ قلعے میں تبدیل کردیا تھا جس سے پاراچنار کے مرکزی امام بارگاہ پر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری شروع کر دی گئی اور ارد گرد کے سارے شہر کیلئے مسجد کے میناروں میں لگائی گئی مشین گنیں ہی کافی تھیں۔ لہذا سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاہ سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری وادی میدان جنگ میں تبدیل ہوئی اور پانچ ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ صدہ کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتارے گئے اور انکے ہاتھ پیر کاٹ کر پاراچنار بھیج دیئے گئے جنہوں آگ پر پٹرول کا کام کیا اور خونریز لڑائیاں شروع ہوئیں جو پانچ سال تک جاری رہی۔ پاراچنار کو پاکستان سے ملانے والا واحد شاہراہ کئی سال تک بند رہا اور پاراچنار فلسطین اور غزا میں تبدیل ہوا۔ تین سال پاراچنار کا محاصرہ جاری رہا اور طوری بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے پُرخطر سفر کرنے پر مجبور ہوئے تھے، بہت سے لوگ راستے سے اغوا کرکے قتل کئے گئے، بعض لوگ بھاری تاوان دیکر چھڑائے گئے اور کچھ ابھی بازیاب نہیں ہوئے ہیں۔ بچے ادویات اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔ اسکے بعد پاراچنار میں پے درپے خودکش دھماکے شروع کردئیے گئے جس میں سینکڑوں لوگ قتل کئے گئے جس میں ۲۰۰۸ کے انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے اُمیدوار ڈاکٹر ریاض حسین شاہ کے جلسے پر خودکش حملہ بھی شامل ہے جس میں ڈاکٹر ریاض تو بچ گئے لیکن ایک سو سے زیادہ لوگ قتل ہوئے، ڈاکٹر ریاض شاہ کو بعد میں پشاور کے بھرے بازار میں دن دیہاڑے قتل کیا گیا۔ اور پاراچنار کے مشہور ماہر تعلیم سید رضی شاہ اور پیر عسکر علی شاہ کو اغوا کرکے قتل کیا گیا۔ پارچنار کے علاوہ کراچی، پشاور اور افغانستان کے راستے پاراچنار جاتے ہوئے لوگوں کو بھی خودکش دھماکوں، نسب شدہ بموں اور ٹارگٹ جاری رہی۔
۲۰۱۱ میں آخری فرقہ ورانہ فسادات شلوزان تنگی اور خیواص میں ہوئے جب خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیادہ لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
آخری خودکش دھماکہ عیدگاہ میں ہوا جس میں ۲۳ افراد جاں بحق ہوئے اور دسیوں زخمی ہوئے۔
۲۷ دسمبر ۲۰۱۶ کو گورنر ہاؤس پاراچنار میں جرگے سے خطاب کرتے ہوئے 73 بریگیڈ کے کمانڈر بریگیڈیئر ملک امیر محمد خان نے کہا کہ کرم ایجنسی میں بهاری اسلحے کی موجودگی علاقے کی امن کے لئے خطرہ ہو سکتا ہے قومی اسلحہ ( راکٹ لانچر، ماٹر، توپ ، زیڑاکئے، وغیرہ) رکھنا غیر قانونی ہوگا اور اس کو متعین جگہ پر جمع کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیڑھ ماہ میں سارا اسلحہ جمع کیاجائے اگر قومی اسلحے کو جمع نہیں کیا گیا تو ہم خود تحویل میں لیں گے. اس کے بعد اگر کسی کے پاس ایک گرنیڈ یا آئی ڈی بھی نکلا تو اس پر قانون کا اطلاق ہوگا اور دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا۔ ہم سب کا نیت ہے کہ ملک میں امن اور سلامتی رہے۔
بریگیڈئیر صاحب کی باتیں بجا ہیں اور کوئی ذی شعور شخص اس دلیل کر مسترد نہیں کرسکتا۔ لیکن جس طرح ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے اسی طرح ہر شخص اور ہر قبیلے کو بھی اپنی دفاع کا حق حاصل ہے۔ حکومت مندرجہ بالا حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے طوری قوم کے سیاسی، سماجی اور علاقائی تحفظ کی ذمہ داری اُٹھاتے ہوئے پہلے ٹھوس اقدامات کریں تاکہ اس قبیلے کو موجود خطرات سے بچانے کا کوئی تو سامان ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کل پاک فوج طوری قبیلے سے اسلحہ اکھٹا کریں اور پھر القاعدہ، طالبان اور دیگر دشمن قوتیں حملہ آور ہوجائیں۔ حکومت پاکستان اور پاک فوج نے طوری قبیلے کو کھبی بھی تحفظ فراہم نہیں کیا ہے۔ اور انگریز نے طوری قوم کی تحفظ یقینی بنانے کیلئے نہ صرف کرم ملیشیا کھڑا کردیا تھا بلکہ قبائل میں مفت اسلحہ بھی تقسیم کیا تھا، 1986 میں ضیاالحق نے کرم ملیشیا کو پورے پاکستان میں تقسیم کرکے طوری بنگش قبائل کو طویل جنگوں میں جھونک دیا اور اب پاک فوج طوری قوم سے اسلحہ اکھٹا کرکے دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں؟
کرم ملیشیا میں متناسب بھرتی کرکے ایک ونگ بنایا جائے اور اسلحہ انکے سپرد کیا جائے۔ پیواڑ، بوڑکی، نستی کوٹ، شلوزان سمیت سرحدی علاقوں کی نگرانی کرم ملیشیا کے اسی ونگ کے حوالے کرکے طوری، بنگش قبائل کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
تحریر:شفیق طوری
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn