مرحوم ولی خان بابا فرمایا کرتے تھے کہ کیاہماری اور ہماری آئندہ نسلوں کی زندگی ان یقین دہانیوں میں گزر جائے گی کہ ہم پاکستان کے وفادار ہیں غدار نہیں۔ پاکستان میں ساٹھ سال تک تو یہ مسئلہ چلتا رہاہے کون وفادار ہے کون غدار ہے اور کون کم وفادار ہے کون زیادہ وفادار ہے اوریہ سر ٹیفکیٹ ہمیشہ پنڈی اور اسلام آباد سے تقسیم ہوتےرہے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس سرٹیفکیٹ میں مذہبی رنگ بھی چڑھنے لگا۔ اب آپ کے لیے مذہب کا سرٹیفکیٹ بھی اسلام آباد سے بن کر آتا ہے جو یہ ثبوت ہوتا ہے کہ آپ محب وطن بھی ہیں اورمسلمان بھی
ان سب رسہ کشیوں میں ہم نے آدھا ملک گنوا دیا اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی اکثریت نے کسی اقلیت سے آزادی لی ہو ۔ بنگلہ دیش کے چھپن فیصد عوام نے چوالیس فیصد عوام سے آزادی حاصل کرنے کی ایک طویل جدوجہد کی اور اسلام آباد کی غلام گردشوں سے آزادی حاصل کی۔ آدھا پاکستان گنوا کر تب ہمارے حکمرانوں ، اشرافیہ اور سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ ملک چلانےکا کوئی طریقہ کار ہوتاہے، کوئی ڈھانچہ بنایا جاتا ہے ۔ایک آئین درکار ہوتا ہے اور طویل بحث ومباحثے کے بعد اس وقت کے قومی سطح کے لیڈران جناب ذالفقار علی بھٹو صاحب ،ولی خان ،مفتی محمود اور بہت سارے لوگو ں نے مل کر ایسا آئین بنایا جس پر تقریباََ سب ہی متفق ہوئے اور یہ پاکستان کی پہلی بڑی کامیابی تھی ۔
اس آئین کی رو سے ملک ایک وفاق ہو گا اور وفاق کی اکائیاں ہوں گی۔ وفاق اور ان اکائیوں کے درمیان ایک ورکنگ ریلیشن ہوگا جس میں بہت سارے اختیارات صوبوں کے پاس ہوں گے اور بہت کم اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔ چونکہ اس وقت پاکستان کے حالات ایسے تھے، آدھا ملک ٹوٹ چکا تھا یہ فیصلہ ہوا کہ دس سال بعد صوبوں کو خود مختاری دی جائے گی اور دس سال میں بتدریج یہ عمل مکمل ہو گا۔ لیکن پھر کیا ہوتا ہے فوج وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ پر چڑھ دوڑتی ہے ۔اقتدار پھر ان کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ پھر ایک لمبی اور نہ ختم ہونے والی اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو جاتی ہے ۔اس رسہ کشی میں ہم بہت سارا قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔
بی بی شہید کے بعد وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنتی ہے۔ بہت عرصے بعد ملک میں سنجیدہ قیادت ملک کے بینادی مسائل کے حل اور بنیادی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لیے مل بیٹھ کر کام کرنے پر تیار ہوتی ہے اور یہ پاکستان کی خوش قسمتی تھی اس وقت اقتدار کے ایوانوں میں آصف علی زرداری ،اسفند یار ولی، مولانا فضل الرحمان جیسے سنجیدہ لوگ موجود تھے جو بہت سوچ بچار کے بعداس نتیجے پر پہنچے کہ اس ملک کے آئینی اور انتظامی معاملات کو صحیح ڈگر پر لانے کی اشد ضرورت ہے ان سب کوششوں کا نتیجہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی صورت میں نکلتا ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کیا ہے؟ اٹھارویں آئینی ترمیم میں صوبوں کویہ آئینی حق دیا گیا کہ آپ اس وفاق میں برابر کے حصہ دار ہیں ۔آپ کسی کے غلام نہیں ہیں ،یہاں پر کوئی بڑی اورچھوٹی قومیت نہیں ہے، یہ سب لوگوں کا مشترکہ پاکستان ہے، اس اٹھارویں آئینی ترمیم میں اختیارات کو صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔
لیکن جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آتی ہے روزانہ کی بنیاد پر نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔ کبھی صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے، کبھی اٹھارویں آئینی ترمیم کو رول بیک کرنے کی بات ہوتی ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ اٹھارویں آئینی ترمیم سے مسئلہ کس کو ہے؟ تینوں صوبوں میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت ہے، پھر کس کو مسئلہ ہے؟ یہ مسئلہ ان کو ہے جن کو اس ملک میں جمہوریت ہضم نہیں ہوتی۔ مسئلہ پاکستان کی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو ہے۔ ان کے لیےیہ بات ناقابل برداشت ہے کہ اس ملک میں سیاسی استحکام آئے ۔ ہم نے اپنے اوپر فرض کیا ہوا ہے کہ ہم نے ترقی نہیں کرنی۔ ہم نے آگے نہیں جانا۔ پوری زندگی ہم نے اور ہماری آئندہ نسلوں نے ان ہی چکروں میں رہنا ہے کہ اس ملک کا آئینی ڈھانچہ کیا ہو گااور اس ملک میں بنیادی اکائیوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں انتظامی اعتبار سے نئے صوبے بنتے اور وہ صوبے ضلعوں کو، ضلعے تحصیلوں کو اور تحصیلیں یونین کونسل کو اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کرتیں۔ کیونکہ اختیارات عوام کی ملکیت ہے اختیارات اسلام آباد کے افسر شاہی کی ملکیت نہیں ہے۔
لیکن اب حالات اس نہج پر ہیں کہ بلوچستان میں شورش ہے ، سندھی ،،پختون ناراض ہیں ،سرائیکی آپ سے نالاں ہیں اور اس میں آپ چاہتے ہیں طاقت پھر مرکز کے پاس آئے ۔ آج ایک ذمے دار سیاسی پارٹی عوامی نیشنل پارٹی جو کہ مزاحمتی سیاست کی ایک مضبوط تاریخ رکھتی ہے کے سربراہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ آپ اٹھارویں آئین ترمیم کو چھیڑتے ہیں تو ہم وفاق کا حصہ نہیں رہیں گے ۔ اور یہ بہت تشویشناک صورتحال ہے ۔ ایک طرف آپ کے اوپر پی ٹی ایم کی تلوار لٹک رہی ہے دوسری طرف آپ سے بلوچ ناراض ہیں تیسری طرف سندھی قوم پرست آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے اس صورت میں جو لوگ اس وفاق کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں آپ ان کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ تاریخ کی بدترین حکمران جماعت اپنے ناکامیاں چھپانےکے لیے سب کچھ پھر سے ایک ادارے کی جھولی میں ڈالنے کو تیار ہے جو ادارہ پہلے سے اس ملک کےوسائل پر بری طرح قابض ہے۔ لیکن اگر ایسا کروگے تو ملک میں اندرونی طور پر بغاوت ہو گی اور وہ بغاوت بہت خطرناک ہو گی ۔ پاکستان کی سول ملٹری اسٹبلشمنٹ کو ان باتوں کو سنجیدگی سے لیناہوگاکہ ملک میں پہلے سے مسائل بہت زیادہ ہیں ۔ مسائل بڑھائے نہ جائیں بلکہ لوگوں کو سکون کی زندگی گزارنے دی جائے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn